دل جلتا ہے شام سویرے

دل جلتا ہے شام سویرے
ایک چراغ اور لاکھ اندھیرے


بھیگی پلکیں نیند سے خالی
چین کے دشمن رین بسیرے


لوگ سمجھتے ہیں سودائی
پیار نے اپنے بھی دن پھیرے


اپنا اپنا درد ہے ورنہ
کس کی گلیاں کیسے پھیرے


ان کا وہ معصوم تبسم
جیسے کوئی پھول بکھیرے


اے غم دوراں اے غم جاناں
دل ہے ایک ستم بہتیرے


کیسے پہنچے نیند آنکھوں تک
بیٹھا ہے دل رستہ گھیرے


تو ہی بتا یہ درد ہے کیسا
پلکیں میری آنسو تیرے