دل ہے بحر بیکراں دل کی امنگ
دل ہے بحر بیکراں دل کی امنگ
چار موج چار سو ہے چار رنگ
موج اول ہے جز و کل میں محیط
سر بسر کبر و منیٰ کا رنگ ڈھنگ
ہے تصور دویمی موج خیال
فرش سے تا عرش جس کی ہے ترنگ
سویمی ہے عقل محدود و سلیم
مانتے ہیں جس کا لوہا سب دبنگ
دل کی ہے موج چہارم واہمہ
دم بہ دم جس کی انوکھی ہے امنگ
چار دانگ عالم ایجاد میں
چار موجیں ہیں بہم اور خانہ جنگ
جان کی تحریک سے ہے سب نمود
خواہ دل ہے خواہ ہے دل کی امنگ
ہیں اسی تحریک میں آخر فنا
شمع کی لو میں فنا جیسے پتنگ
عقل کی صیقل سے ہو جاتا ہے پاک
دل کے آئینہ کو جب لگتا ہے زنگ
علم میں ہے ہستئ دل بے ثبات
جیسے ساحرؔ آب دریا میں ترنگ