دل غم عشق کے اظہار سے کتراتا ہے

دل غم عشق کے اظہار سے کتراتا ہے
آہ غم خوار کہ غم خوار سے کتراتا ہے


یہ سمجھ کر کے جفاؤں میں مزا پاتا ہے
وہ ستم گر مرے آزار سے کتراتا ہے


ہو گیا اس پہ بھی کچھ اس کی شکایت کا اثر
اب مسیحا بھی جو بیمار سے کتراتا ہے


ہو رہا ہے مجھے تکمیل محبت کا گماں
عشق اب حسن کے دیدار سے کتراتا ہے


دل پروردہ غم خوشیوں سے یوں جاتا ہے
سوزؔ اک بال جوں اغیار سے کتراتا ہے