دل صافی

دل صافی یہ ہو اے مہرؔ خدا کی رحمت
میں نے محسوس کیا ہے بہت آرام یہاں
گوشۂ عافت اس کو کہیں تو زیبا ہے
کیسی تسکین کا ہے کیسے سکوں کا یہ مکاں
اس طرح شہر سے کچھ دور کوئی معبد ہو
شارع عام سے ہٹ کر کہ نہ ہو بھیڑ وہاں
کوئی جائے بھی جو اس جا تو ارادہ کر کے
یہ نہ ہو ہر کس و ناکس ہو وہاں گشت کناں
جائے تنہا ہو مکاں گوشۂ عزلت سا ہو
جس طرف دیکھو نظر آئے خموشی کا سماں
سایۂ افگن ہوں کہن سال درخت اس جا پر
ایسی ٹھنڈک ہو کہ بس آئے وہاں جان میں جان
صحن میں آب مصفا پڑا حوض بھی ہو
اور وہ ایسا مسکن کہ نہ ہو جس کا بیاں
گرہ میں ہوں روشیں بیش بہا پتھر کی
صاف ایسی کہ نہ رتنکا بھی نظر آئے وہاں
سامنے آنکھ کے معبد کا ہو برج سنگیں
جس کی تعمیر کو برسوں ہوئے ہوں یا صدیاں
غرض ایسا ہو مکاں اور تو واں بیٹھا ہو
اور خموشی و سکوں چار طرف سے ہو عیاں
تو وہاں بیٹھا ہو آرام سے اور تیرے سوا
آدمی زاد کا ڈھونڈھے نہ نظر آئے نشاں
دیکھ کر آنکھ میں نور طبیعت میں سرور
تو یہ سمجھے کہ زمیں پر ہے یہی باغ جناں
ہے یہی حال جو دیکھو تو دل صافی کا
وہی تسکین و سکوں اور وہی راحت ہے یہاں
وہی ٹھنڈک ہے وہی نور و سرور و موفور
ہے یہاں بھی وہی تسکین و خموشی کا سماں
میں یہاں بیٹھ کے اے مہرؔ مزے لیتا ہوں
اور سمجھتا ہوں زمیں پر ہے یہی باغ جناں