دل مایوس
دل مایوس بتا اے دل ناکام بتا
مبتلائے ستم گردش ایام بتا
جی کے میں کیا کروں دنیا میں مرا کام ہے کیا
خون امید کا ہوتا ہے سر بزم طرب
بن گیا حوصلہ غم ہی مصیبت کا سبب
جی کے میں کیا کروں دنیا میں مرا کام ہے کیا
درد بڑھ جائے اگر چارہ گری کون کرے
ہے کٹھن راہ وفا راہبری کون کرے
جی کے میں کیا کروں دنیا میں مرا کام ہے کیا
گلشن شوق میں کانٹوں کے سوا کچھ نہ ملا
ہائے دنیا میں وفاؤں کا صلہ کچھ نہ ملا
جی کے میں کیا کروں دنیا میں مرا کام ہے کیا
جستجو کس کی ہے ناشادؔ کوئی کیا جانے
کیوں دل زار ہے برباد کوئی کیا جانے
جی کے میں کیا کروں دنیا میں مرا کام ہے کیا