دل حزیں کو نہ معلوم کیوں قرار نہیں

دل حزیں کو نہ معلوم کیوں قرار نہیں
نگاہ شوق تو پابند اعتبار نہیں


یہ چند روزہ بہاریں سدا بہار نہیں
کہ ڈھلتی چھاؤں کا اے دوست اعتبار نہیں


بدلتے رہتے ہیں یہ رنگ آسماں کی طرح
نظر فروش سہاروں کا اعتبار نہیں


تری نگاہ کے صدقے میں اب وہاں ہوں جہاں
کوئی رفیق نہیں کوئی غم گسار نہیں


چمن میں راز چمن بن گیا ہے جو ہمدم
وہی تو بلبل مرحوم کا مزار نہیں


نہ چھین شام جنوں مجھ سے آسماں کہ مجھے
ہوائے صبح چمن اب کے سازگار نہیں


اسی سے پوچھو مری ہم سفر ہے یہ بجلی
مرے جنوں کو زمانے کا انتظار نہیں


وہ غم نصیب کہاں جائے کس کو اپنائے
تری نگاہ کرم جس کی غم گسار نہیں