دل اپنا جلایا ہے کسی نے بھی خوشی سے

دل اپنا جلایا ہے کسی نے بھی خوشی سے
بن جاتی ہے جی پر تو گزر جاتے ہیں جی سے


جھوٹوں کبھی پوچھا ہے تو وہم آئے ہیں کیا کیا
مانوس ہیں اتنے تری بیگانہ روی سے


رستہ جسے مل جائے یہ توفیق ہے اس کی
پلٹا نہیں اب تک ہے کوئی تیری گلی سے


خوشبو نے بہاراں کی سنی چاپ کسی نے
مایوس نہ ہونا مری آہستہ روی سے


بن بن کے بگڑتے رہے امید کے پیکر
آذر تھے مگر کام رہا بت شکنی سے


اندیشہ بس اتنا ہی رہا دشت طلب میں
بھر آئے کہیں آنکھ اداؔ تشنہ لبی سے