دل آئینہ ہے مگر اک نگاہ کرنے کو

دل آئینہ ہے مگر اک نگاہ کرنے کو
یہ گھر بنایا ہے اس نے تباہ کرنے کو


گل وصال ابھی دیکھا نہ تھا کہ آ پہنچی
شب فراق بھی آنکھیں سیاہ کرنے کو


گلیم و تخت اتارے ہیں غیب سے اس نے
مجھے فقیر تجھے بادشاہ کرنے کو


سجے ہیں دشت و بیاباں عجب قرینے سے
تجھے سوار مجھے گرد راہ کرنے کو


ملی مجھے تری ہمسائیگی سو دنیا میں
تمیز مرتبۂ کوہ و کاہ کرنے کو


دمیدہ ہر شجر گرد باد نخل جنوں
ہمارے چاک گریباں سے راہ کرنے کو


دل گداختہ و چشم تر ہی کافی ہے
فتوح مملکت مہر و ماہ کرنے کو