دکھلایا رقیبن نے نیا کوئی ہنر پھر
دکھلایا رقیبن نے نیا کوئی ہنر پھر
بدلی سی نظر آتی ہے کچھ ان کی نظر پھر
مرتا ہے جو ہر روز مگر مر نہیں چکتا
کل رات کو گھر آ گیا وہ شعبدہ گر پھر
اب جوتیوں سے ایسی خبر لوں کہ رکھے یاد
دیکھے تو موا میری طرف بھر کے نظر پھر
اک سال کی گڈی ابھی ہونے بھی نہ پائی
لو ہو گیا بھابی کے یہاں نور نظر پھر
امید سے سنتی ہوں پڑوسن کی ہے نانی
لو سوکھے ہوئے نخل میں آیا ہے ثمر پھر
کل رات کو جب سونے گئیں اچھی بھلی تھیں
لو صبح سے دکھنے لگی بھابی کی کمر پھر