دیواروں سے کان لگا کر بیٹھے ہو
دیواروں سے کان لگا کر بیٹھے ہو
پہرے پر دربان لگا کر بیٹھے ہو
اس سے زیادہ کیا بیچو گے دنیا کو
سارا تو سامان لگا کر بیٹھے ہو
دکھ میں ڈوبی آوازیں نہ سن پائے
ایسا بھی کیا دھیان لگا کر بیٹھے ہو
بیچ رہا ہوں میں تو اپنے کچھ سپنے
تم تو سنویدھان لگا کر بیٹھے ہو
ہم نے تو گن ڈالے ہیں ٹوٹے وعدے
تم کیول انومان لگا کر بیٹھے ہو
اپنے گھر کے دروازے کی تختی پر
اپنی جھوٹی شان لگا کر بیٹھے ہو
خوب اندھیرے میں ڈوبے ان لوگوں سے
سورج کا ارمان لگا کر بیٹھے ہو
جوجھ رہی ہے کٹھن سوالوں سے دنیا
تم اب بھی آسان لگا کر بیٹھے ہو
کتنے اچھے ہو تم اپنے باہر سے
اچھا سا انسان لگا کر بیٹھے ہو