دیوالی
گھٹ گیا اندھیرے کا آج دم اکیلے میں
ہر نظر ٹہلتی ہے روشنی کے میلے میں
آج ڈھونڈھنے پر بھی مل سکی نہ تاریکی
موت کھو گئی شاید زندگی کے ریلے میں
اس طرح سے ہنستی ہیں آج دیپ مالائیں
شوخیاں کریں جیسے ساتھ مل کے بالائیں
ہر گلی نئی دلہن ہر سڑک حسینہ ہے
ہر دیہات انگوٹھی ہے ہر نگر نگینہ ہے
پڑ گئی ہے خطرے میں آج یم کی یمراجی
موت کے بھی ماتھے پر موت کا پسینہ ہے
رات کے کروں میں ہے آج رات کا کنگن
اک سہاگنی بن کر چھائی جاتی ہے جوگن
قمقمے جلے گھر گھر روشنی ہے پٹ پٹ پر
لے کے کوئی منگل گھٹ چھا گیا ہے گھٹ گھٹ پر
روشنی کرو لیکن فرض پر نہ آنچ آئے
ہو نگاہ سیما پر اور کان آہٹ پر
ہوشیار ان سے بھی جو نگاہ پھیرے ہیں
پاک ہی نہیں تنہا اور بھی لٹیرے ہیں
چھوڑ اپنی ناپاکی یا بدل دے اپنی دھن
موت لے گا یا جیون دو میں جس کو چاہے چن
ہم ہیں کرشن کی لیلا ہم ہیں ویر بھارت کے
ہم نکل ہیں ہم سہدیو ہم ہیں بھیم ہم ارجن
دروپدیؔ سے درگھٹنا دور کر کے چھوڑیں گے
اے سمے کے دریودھن چور کر کے چھوڑیں گے
قبر ہو سمادھی ہو سب کو جگمگائیں گے
دھوم سے شہیدوں کا سوگ ہم منائیں گے
تم سے کام لینا ہے ہم کو دیپ مالاؤ
سارے دیپ کی لو سے دل کی لو بڑھائیں گے
سب سے گرمیاں لے کر سینے میں چھپانا ہے
دل کو اس دوالی سے اگنی بم بنانا ہے