دیدنی

میری پلکوں کو مت دیکھو
ان کا اٹھنا ان کا جھپکنا جسم کا نا محسوس عمل ہے
میری آنکھوں کو مت دیکھو
ان کی اوٹ میں شام غریباں ان کی آڑ میں دشت ازل ہے
میرے چہرے کو مت دیکھو
اس میں کوئی وعدۂ فردا اس میں کوئی آج نہ کل ہے
اب اس دریا تک مت آؤ جس کی لہریں ٹوٹ چکی ہیں
اس سینے سے لو نہ لگاؤ جس کی نبضیں چھوٹ چکی ہیں
اب میرے قاتل کو چاہو
میرا قاتل مرہم مرہم دریا دریا ساحل ساحل
قاضئ شہر کا ماتھا چومو
جس کے قلم میں زہر ہلاہل جس کے سخن میں لحن ہلاہل
اب اس رقص کی دھن پہ ناچو
جس کی گیت پہ لٹ گیا قاضی جس کی لے پر بک گیا قاتل