دیدۂ صرف انتظار ہے شمع

دیدۂ صرف انتظار ہے شمع
میری حالت کی یادگار ہے شمع


نہیں دل میں کسی کے سوز و گداز
کہ تماشاۓ روزگار ہے شمع


پئے جنبش سدا تڑپتی ہے
تپش ناتواں شکار ہے شمع


رخ روشن ہے نور بینائی
چشم عشاق کا غبار ہے شمع


روز تیرہ میں بد نما خورشید
شب روشن میں تیرہ کار ہے شمع


یاد گل رخ سے پھول جھڑتے ہیں
کس بشاشت سے نو بہار ہے شمع


خاک ناسور دل بھرے اس کا
زخمیٔ گریہ ہائے زار ہے شمع


حسن دیوانہ سب کو کرتا ہے
اپنے ہی آپ پر نثار ہے شمع


صبح ہوتے ہی ٹمٹماتی ہے
آپ کی چشم پر خمار ہے شمع


کیوں نہ روئے نہ کس طرح سے جلے
کہ فغانی راز دار ہے شمع


نہیں بجھتی لگی ہوئی جی کی
شعلۂ جان سوگوار ہے شمع


ہے ادھر داغ برق پروانہ
اور ادھر چشم ابر بار ہے شمع


حسن بھی ہے مآل کار وبال
بزم در بزم کیا ہے خار ہے شمع


جھانکنا پردے سے بری خو ہے
خود بہ خود آپ شرمسار ہے شمع


شب تنہائی اور تو اور یہ
اے قلقؔ تیری غم گسار ہے شمع