ڈائری ۸۳ء
پہلا دن، فقیر آتا ہے، صدا دیتا ہے، چلاجاتا ہے، پتہ نہیں کیا صدا دیتا ہے، کہاں سے آتا ہے، کہاں چلا جاتا ہے لیکن فقیر ہے اور صدا دیتا ہے۔ جمعرات ہو تو دس پیسے فی فقیر کے حساب سے اپنے رزق حلال سے نکالتا ہوں۔ محتاجوں، بیواؤں، یتیموں اور فقیروں کو خیرات دیتا ہوں۔ کر بھلا سو ہو بھلا۔ لیکن اس فقیر کو کچھ نہیں دے پاتا۔ کیونکہ وہ آتا ہے، صدا دیتا ہے، چلا جاتا ہے۔ پتہ نہیں کیا صدا دیتا ہے، کہاں سے آتا ہے، کہاں چلا جاتا ہے، لیکن فقیر ہے اور صدا دیتا ہے۔ پتہ نہیں کیا کہتا ہے۔ کون سی زبان میں کہتا ہے۔ اللہ رسولؐ کا نام لیتا ہے اور ان کے آگے پیچھے پتہ نہیں کیا’’بھالو بھالو‘‘ وغیرہ کہتا ہے۔
فقیر ہے، ظاہر ہے مانگتا ہی ہوگا۔ اور ان دنوں رزق حلال میں بھی کچھ کمی ہو رہی ہے۔ کہیں دھماکہ ہو جائے۔ گولی چل جائے تو رزق بھی ہراساں ہو جاتا ہے۔ ٹیئر گیس اس کی آنکھوں میں پڑ جائے تو اسے دکھائی نہیں دیتا اور دکھائی نہ دے تو میری جانب کیونکر آئے اور اب اگر میری جانب نہ آئے تو میں اسے خیرات کیسے کروں۔۔۔ اور خاص طور پر اس فقیر کی صدا ہی میری سمجھ میں نہیں آتی جو صدا دیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
اس کی صورت شکل ہم جیسی نہیں ہے۔ ہم تو ماشاءاللہ دراز قد، کھلی ہوئی رنگت اور فراخ سینوں کے مالک ہیں۔ لیکن وہ یونہی سا ہے۔ چھوٹے قد کا، نیم سیاہ، فاقہ زدہ اور چگی داڑھی والا، ہماری طرح خوش لباس بھی نہیں، پھٹی ہوئی چار خانی دھوتی اور پاؤں سے ننگا۔ ہاتھ میں چھتری بھی ضرور رکھتا ہے۔ آسمان کی جانب دیکھتا ہے جیسے ابھی بارش ہونے کو ہو۔ حالانکہ حماقت ہے۔ ہمارے ہاں اتنی بارش تو نہیں ہوتی۔ ہاں اس کی آنکھوں میں سازش ہے۔ لیکن اللہ رسولؐ کا نام لیتا ہے۔
تیسرا دن، لیجیے وہ فقیر پہچانا گیا۔ اپنے خواجہ صاحب آج اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر مجھ غریب کو ملنے کے لیے تشریف لے آئے، کل ہی جاپان سے لوٹے ہیں۔ ۷۱ء سے پہلے خواجہ صاحب کا سابقہ مشرقی پاکستان میں بڑا وسیع کاروبار تھا۔ پھر وطن اور اسلام دشمنوں نے تخریب کاری سے وطن پاک کا وہ بازو الگ کردیا تو وہ ادھر چلے آئے۔ دو کپڑوں میں تھے۔ اب کپڑوں کی ملوں کے مالک ہیں۔ ہاں تو خواجہ صاحب تشریف لے آئے اور اسی وقت وہ فقیر بھی آگیا۔ اس نے صدادی تو خواجہ صاحب چونکے۔ اسے پاس بلایا۔ بٹھایا اور گفتگو کرنے لگے اور اسی غیرمانوس’’بھالو بھالو‘‘ زبان میں جس میں وہ صدا دیتا تھا۔ خواجہ صاحب نے بتایا کہ یہ فقیر بنگالی ہے۔ ملک دولخت ہوا تو ادھر بنگالیوں کی فہرستیں بنیں۔ یہ فقیر کسی درگاہ میں پڑا رہتا تھا۔ اس کا نام کون شامل کرتا۔ چنانچہ یہیں رہ گیا۔
اب زبان اسے نہیں آتی، اس لیے بنگالی میں ہی صدا دیتا ہے جو کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ چنانچہ اکثر بھوکا رہتا ہے۔ پوچھو کہ بنگالی ہو تو پیٹ پر ہاتھ مارتا ہے کہ بھوک لگی ہے۔ مجھے ایک تو اس کی زبان سے اندازہ ہوا کہ بنگالی ہے۔۔۔ اور دوسرے اس کی آنکھوں سے جن میں سازش کی چمک ہے۔ سبھی بنگالی ایسے ہی تھے۔ شکر ہے ان سے جان چھوٹی اور پھر کوئی اتنے مسلمان بھی نہیں تھے۔ میں نے وہاں مولویوں کے گھروں میں بھی ہارمونیم دیکھے تھے۔ جتنا عرصہ وہاں قیام رہا مجال ہے کسی بنگالی کو پاس بھی بیٹھنے دیا ہو۔ مجھے تو گھن آتی تھی ان سے۔ میں نے پوچھا خواجہ صاحب اگر گھن آتی تھی تو غلاظت کی اس پوٹی کو اب کیوں پہلو میں بٹھا رکھا ہے۔ وہ بولے۔ بھئی کبھی یہ ہمارے بھائی ہوتے تھے۔ دیکھ کر جی بھر آیا۔
وہ فقیر جانے گا تو خواجہ صاحب نے اس کی ہتھیلی پر ایک اٹھنی رکھ دی اور گلوگیر ہوکر کہنے لگے۔ آہا۔ یہ فقیر متحدہ پاکستان کی آخری نشانی ہے۔ اب بھی بھالو بھالو کرتا ہے۔ ویسے ان لوگوں نے ہمارے ساتھ جو غداری کی، اسے کون بھلا سکتا ہے۔ فقیر نے سکے کو غور سے دیکھا اور شاید اس پر لکھی ہوئی بنگالی عبارت پڑھ کر خوش ہوا کیونکہ اس زبان کو پڑھنے والا شاید وہی واحد شخص اس ملک میں باقی تھا۔ اور پھر اسی زبان میں صدا دیتا ہوا چلا گیا۔
ساتواں دن، وہ فقیر ابھی آتا ہے، صدا دیتا ہے، چلا جاتا ہے۔ پتہ نہیں کیا صدا دیتا ہے، کہاں سے آتا ہے، کہاں چلا جاتا ہے۔ لیکن فقیر ہے اور صدا دیتا ہے۔ اور۔۔۔ اکیلا صدا نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے پیچھے پیچھے ایک اور فقیر ہے جو صدا دیتا ہے۔ پتہ نہیں اس کے پیچھے کوئی اور فقیر ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ میرا واہمہ ہے جو میں دیکھتا ہوں لیکن مجھے دکھائی دیتا ہے۔ اور اس کی صدا صاف سنائی دیتی ہے۔ یہ بھی کسی غیرمانوس زبان میں صدا دیتا ہے۔ بیچ میں اللہ رسولؐ کا نام بھی آتا ہے۔ میں نے کئی لوگوں سے پوچھا ہے اور وہ سب یہی کہتے ہیں کہ تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ فقیر تو اب بھی ایک ہی آتا ہے۔ صدا دیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ لیکن مجھے تو دوسرا فقیر دکھائی دیتا ہے۔ اس کی صدا سنائی دیتی ہے۔ فضا میں ہوائیں چلتی ہیں سائیں سائیں کرتی ہوئیں۔ یا شاید سائیں سائیں کرتی ہوئیں۔ میں کیا کروں۔ مجھے دوسرا فقیر بھی دکھائی دیتا ہے۔