دھوپ سروں پر اور دامن میں سایا ہے
دھوپ سروں پر اور دامن میں سایا ہے
سن تو سہی جو پیڑوں نے فرمایا ہے
کیسے کہہ دوں بیچ اپنے دیوار ہے جب
چھوڑنے کوئی دروازے تک آیا ہے
اس سے آگے جاؤ گے تب جانیں گے
منزل تک تو راستہ تم کو لایا ہے
بادل بن کر چاہے کتنا اونچا ہو
پانی آخر مٹی کا سرمایا ہے
آخر یہ ناکام محبت کام آئی
تجھ کو کھو کر میں نے خود کو پایا ہے
شاذؔ محبت کو اپنانا کھیل نہیں
اپنے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا ہے