دھوپ حالات کی ہو تیز تو اور کیا مانگو
دھوپ حالات کی ہو تیز تو اور کیا مانگو
کسی دامن کی ہوا زلف کا سایہ مانگو
اس سے کیا کم ہے کسی کے رخ زیبا کی ضیا
ماہ و خورشید سے کیوں ان کا اجالا مانگو
جس کے بعد اور نہ رہ جائے تمنا کوئی
مانگنا ہو جو خدا سے وہ تمنا مانگو
خوب ہے درد کی لذت یہ بڑی دولت ہے
زخم دل کے لئے مرہم نہ مداوا مانگو
جس سے چھائی ہوئی حالات کی ظلمت چھٹ جائے
تم تو خورشید ہو خود سے وہ اجالا مانگو
گر شب غم کو سحر چاہو بنانا آسیؔ
کسی سلمیٰ سے ضیائے رخ زیبا مانگو