دھوپ بڑھنے کے جو آثار ہوئے
دھوپ بڑھنے کے جو آثار ہوئے
کتنے سائے کے طرف دار ہوئے
تپ کے کندن وہ بنیں گے کیسے
جو جھلسنے کو نہ تیار ہوئے
ہے دوا عشق تو بیماری بھی
ہم دوا کے لیے بیمار ہوئے
جو نہ جسموں کے طلب گار ہوئے
صرف وہ وصل کے حق دار ہوئے
قید سے ان کو چھڑائے کیسے
اپنے ہاتھوں جو گرفتار ہوئے
نہ ہوئے غم زدہ جو غم سے مرے
وہ بڑے خوش ہے کہ غم خوار ہوئے
بات کرتے ہیں جو اقدار کی وہ
جب بھی موقع ملا بازار ہوئے
آئنے ڈھونڈتے ہو تم ہر سو
اور ہم چہرے سے بیزار ہوئے
تب تلک تھے بڑے نقاد نواؔ
جب تلک خود سے نہ دو چار ہوئے