دھرتی کی زباں سوکھ گئی زرد ہوئی گھاس

دھرتی کی زباں سوکھ گئی زرد ہوئی گھاس
آکاش سے امسال اترتی ہے فقط پیاس


آباد ہوئی شام کی رونق مرے گھر میں
سڑکوں پہ بھٹکنا مجھے کیوں آئے گا اب راس


ہاتھوں میں ہے فرصت کہ گتھا زیست کا لچھا
یاروں کا سر شام ہوا لان پہ اجلاس


اب جاؤں کہاں چھت سے ٹپکتی ہیں بلائیں
اب کس کا بھروسا ہوا گھر گھر سے نہیں آس


منظر ہیں سبھی میرے دل بینا پہ روشن
غربت میں مرا شہر بھی ہوتا ہے مرے پاس