دیکھوں کب تک گلوں کی یہ تشنہ لبی

دیکھوں کب تک گلوں کی یہ تشنہ لبی
فطرت کا گلہ کروں تو ہے بے ادبی
پیاسے تو ہیں جاں بہ لب مگر ابر کرم
دریا پہ برستا ہے زہے بوالعجبی