دیکھ لینا گردش ایام پھر
دیکھ لینا گردش ایام پھر
میرے ہاتھوں میں نہ آئے جام پھر
چڑھتے سورج کی پرستش کیا کروں
ڈوب جائے گا تو ہوگی شام پھر
پیاس کے ماروں کا ہنگامہ نہ پوچھ
میکدہ لوٹیں نہ تشنہ کام پھر
اہتمام گردش دوراں نہ پوچھ
صبح ہوتی ہے تو ہوگی شام پھر
ان کی زلفوں میں الجھ کر رہ گیا
آ گیا ہوں کیا میں زیر دام پھر
لوٹنے والوں نے لوٹا میکدہ
میرے حصے میں ہے خالی جام پھر
جس نے کی برباد منظرؔ زندگی
آپ کے ہونٹوں پہ اس کا نام پھر