دیکھ کر بام و در کا سناٹا

دیکھ کر بام و در کا سناٹا
بول اٹھتا ہے گھر کا سناٹا


اے محبت اک آخری آواز
پھر تو ہے عمر بھر کا سناٹا


کوئی صورت نہ کوئی آئینہ
دیدنی ہے نظر کا سناٹا


لکھ رہی ہے سحر کے ماتھے پر
رات اپنے سفر کا سناٹا


کیا یہی ہے اڑان کا موسم
عام ہے بال و پر کا سناٹا


کس کو آواز دے مسافر غم
بے جہت ہے سفر کا سناٹا


آسماں پر ہے آخری تارا
دم بخود ہے سحر کا سناٹا


ہو نہ ہو کوئی آنے والا ہے
کہہ رہا ہے یہ گھر کا سناٹا


چاپ قدموں کی بھی نہیں ہے ضیاؔ
ہم ہیں اور رہ گزر کا سناٹا