دہلی کی سڑکیں
زلف خوباں کی طرح دہلی کی سڑکیں ہیں دراز
اور ٹانگہ ہانکنے والوں پہ ظاہر ہے یہ راز
موٹروں سے کیسے ہو سکتا ہے میرا ساز باز
کاش کہ پٹرول بھی ہوتا شراب خانہ ساز
پی کے اس صہبا کو ہوتیں موٹریں مست خرام
میں تو ہوں مرد مسلماں مجھ پہ پینا ہے حرام
اور اکیلا ہوں بھی تو پیدل چلا جاؤں گا میں
لیلیٰٔ محمل نشیں کو کیسے سمجھاؤں گا میں
نجد کا ناقہ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں گا میں
پانچ چھ بچوں کو آخر کیسے بہلاؤں گا میں
ایک ہو تو گود میں لے لوں کہ وہ بھاری نہیں
میں مگر انسان ہوں اے دوستو لاری نہیں
ٹانگے والے ہیں سمند ناز کے اوپر سوار
آبلہ پائی یہ کہتی ہے کہ اب چلنا ہے بار
دیکھتے ہیں میرے جوتوں کے تلوں کو جب چمار
''کیوں ہوئی جاتی ہیں یارب وہ نگاہیں دل کے پار''
چھوڑ کر جوتوں کو چل سکتا نہیں، ہوں ننگے پاؤں
میری یہ حالت ہے بچہ جس طرح پہنے کھڑاؤں
آ گئے دہلی میں جب سے آدمی پاتال کے
ہو گئے مغرور مالک ہر خر دجال کے
چلتے چلتے ہو گئے خم پاؤں بانکے لال کے
ہم بھی اجرت میں ٹکے دیتے تو ہیں ٹکسال کے
ہم سے لیکن مل نہیں سکتے انہیں آندھی کے بیر
لوٹتے ہیں اجنبی کو جو دکھا کر ہیر پھیر