دیوار گریہ کے پہلے تین ابواب

ایک دیوار گریہ بناؤ کہیں

 

یا وہ دیوار گریہ ہی لاؤ یہیں

اب جو اس پار بیت المقدس میں ہے

تاکہ اس سے لپٹ

اردن و مصر کے، شام کے

ان شہیدوں کو یک بار روئیں

ان کے زخموں کو اشکوں سے دھوئیں

وہ جو غازہ میں لڑ کر

وه جو سینائی کے دشت میں بے اماں

وحشی دشمن کی توپوں کا ایندھن بنے

جن پہ گِدھوں کے لشکر جھپٹتے رہے

وہ جو مرتے رہے وہ جو کٹتے رہے

نعرہ تکبیر کا اپنے لب پر لیے

کلمۂ طیّبہ کا وظیفہ کیے

 

آج جب چار دن چار راتوں کے بعد

ایک خوں خوار سورج

صبحِ فردا کا سورج لبِ بام آیا

تو یہ آنکھوں نے دیکھا

وہ جو آنکھوں نے دیکھا

بھول جاؤ اسے بھول جاؤ کہیں

ایک دیوار گریہ بناؤ کہیں

 

وہ یہودی کہ مقہور و مغضوب ہو کر

اتنی صدیوں سے آواره و بے وطن تھا

رونے آتا تھا دیوارِ گریہ کے نیچے

دھونے آتا تھا اشکوں سے دامانِ ماضی

آج اس کی قلم رو

شہرِ حیفہ سے تا راسِ تہران ہے

اس کی افواج تیز

صورتِ رست خیز

خیمہ زن برسویز

 

اور اہل ِعرب

جن کے اجداد نے

شرق سے غرب تک

شہ سواری بھی کی، تاجداری بھی کی

شہر و صحرا میں آواره و بے وطن ہیں

حیفہ و جافہ و ناصره کے مکیں

سال ہا سال سے ہے مکاں سرفشاں

دشت بھی غیر کا ، شہر بھی غیر کا

بحر بھی غیر کا

 

اے خداوندِ  افلاکیاں ، خاکیاں

کیا عرب کو بھی آوارہ ہونا پڑے گا

یعنی صدیوں تلک

یونہی دیوار گریہ پر رونا پڑے گا؟

 

ایک دیوارِ گریہ بناؤ کہیں

آج یاروں کو روؤ رلاؤ کہیں

اپنے دشمن تو ملعون و ناخوب ہیں

ہم تو یاروں کی یاری سے محجوب ہیں

ایک بھبکی سے دشمن کی جو ڈھیر ہے

وہ اگر شیر ہے کاغذی شیر ہے

 

ایک جانب وہ طیارہ بردار تھے

جن پہ مغرب کے بمبار اسوار تھے

وہ تو اڑتے رہے اور جھپٹتے رہے

آگے بڑھتے رہے پیچھے ہٹتے رہے

روکا یاروں کو اک فکرِ انجام نے

بیڑے یاروں کے دیکھا کیے سامنے

 

آئے بمبار جو کارواں کارواں

ان کی یلغار سے تھا سیاه آسماں

ان کی زد میں عرب کے سجیلے جواں

جن کے نیزوں نے جیتا تھا آدھا جہاں

جن کی تاریخ فتحیں سرافرازیاں

کوئی دم میں ہوئے اس طرح بے نشاں

سینۂ دشت تھا خون اور ہڈیاں

وہ بھی جھلسا دیا نارِ نیپام نے

بیڑے یاروں کے دیکھا کیے سامنے

 

جن سے دل کو وفا کی امیدیں بہت

جن کے وعدے بہت تھے وعیدیں بہت

بیٹھے لفظوں کے راکٹ چلایا کیے

یا بیانوں کے بم آزمایا کیے

دھمکیوں کے میزائل اڑایا کیے

کوئی گِرتوں کو آیا مگر تھامنے؟

بیڑے یاروں کے دیکھا کیے سامنے

 

۳

آج سینائی کی مسجدیں بے اذاں

آج سینائی میں عیدِ صیہونیاں

روحِ قبلہ تپاں درد کی آگ میں

ہو رہا ہے چراغاں سناگاگ میں

 

مضطرب مضطرب روحِ جبریل ہے

سوق در سوق غولِ سرائیل ہے

جورِ دجّال ہے، شورِ فریاد ہے

یہ قیامت ہے یا مِحض افتاد ہے؟

 

کوئی دن کے لیے

قاہرہ کے شبینہ کلب کے حسینو!

اپنے جلوے نہ اتنے نمایاں کرو

کوئے بیروت و بصرہ کے بے آستینو!

اپنے غمزوں کو اتنا نہ ارزاں کرو

شیخِ عالی مقام!

باز کچھ روز کنجِ قفس میں رہیں

شاہِ ذی احترام!

تجھ کو ناموسِ امت کی قسمیں رہیں

اے عرب کے عوام!

ہاں رقابت کے جذبات بس میں رہیں

ورنہ قطرہ یہ آلِ سرائیل کا

بحرِ ظلمات بن کر بپھر جائے گا

ایک عالم کو غرقاب کر جائے گا

وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں

آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں

ان کا مقصد جہانِ عرب پر بزن

آپ کی ترک تازی کی حد ہے یمن

وہ مسخر کریں ارض و افلاک کو

آپ کے مورچے ریڈیو ریڈیو

آپ تسبیح و جام و مئے ارغواں

وہ سپاہی، زن و بچہ، پیر و جواں

آپ اونٹوں پہ محمل سجاتے ہوئے

وہ نئے اسلحے آزماتے ہوئے

آپ سمجھے کہ یہ روز کا کھیل ہے

ان کی نظروں میں تو آپ کا تیل ہے

آپ کی کشت ہے

آپ کا شہر ہے

آپ کا دشت ہے

آپ کی نہر ہے

متعلقہ عنوانات