اے جانِ جاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو: ڈیپ فیک ٹیکنالوجی
آج کل سوشل میڈیا پر ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا بہت چرچا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس ٹیکنالوجی کے صرف نقصان ہی گنوائے جارہے ہیں۔۔۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں سب کچھ "فیک" ہوتا ہے۔۔۔یہ ٹیکنالوجی ہمارے لیے نعمت یا زحمت۔۔۔آئیے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوش کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا معلومات کی دنیا ہے۔ ہر لمحہ معلومات کا ایک سمندر ہے جو اس کے اندر جذب ہو رہا ہے ۔ ہر وقت جس رفتار سے معلومات اس پر اپ لوڈ ہو رہی ہیں اسی رفتار سے اس معلومات میں سے صحیح اور غلط کی تمیز کرنے کے امکانات مخدوش ہو رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا نے جہاں معلومات تک رسائی اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر درپیش مسائل کے لیے آواز اٹھانا بہت آسان کر دیا ہے، وہاں غلط معلومات یعنی ڈس انفارمیشن پھیلانا اور کئی معاملات کو الجھا دینے کی راہیں بھی ہموار کی ہیں۔ اس دجل و فریب اور بے یقینی کی دنیا میں اب آپ آنکھوں دیکھے اور کانوں سے سنے کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ حقیقت ہے یا فسانہ ۔
مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے ایسے ایسے طریقہ ہائے کار وضع کر لیے گئے ہیں غیر حقیقی معلومات کی تخلیق کے۔۔۔۔ کہ دیکھنے سننے یا پڑھنے والا اسے سچ سمجھے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ ایسی ہی بے شمار تکنیکوں میں سے ایک ڈیپ فیک ٹیکنالوجی ہے ۔ تصاویر ویڈیوز یا آڈیوز میں اپنی مرضی کی تبدیلی لا کر انہیں اپنے مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ کا سوشل میڈیا پر ہر روز "فوٹوشاپڈ" تصاویر سے پالا پڑتا ہوگا ۔
کسی کے دھڑ پر کسی کا سرا لگا کر بنائی گئی تصاویر ہنسی مذاق اور دیگر تفریحی مقاصد کے لیے برسوں سے استعمال ہو رہی ہیں لیکن کسی کی آواز اور ویڈیو میں ایسی تحریف کر دینا کہ دیکھنے والے کو بالکل حقیقی لگے، آج سے چند برس قبل ممکن نہ تھا ۔ آج فیک ٹیکنالوجی نے یہ سب ممکن بنا دیا ہے۔ امریکی جریدے "دی گارڈین" میں شائع ہونے والے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی فرم "ڈیپ ٹریس" کے سروے کے مطابق انٹرنیٹ پر ستمبر 2019 تک پندرہ ہزار کے قریب ڈیپ فیک ویڈیوز موجود تھیں جو اگلے نو ماہ میں دو گنا ہو گئیں۔ آج یہ تعداد کتنی ہو گئی ہو گی یہ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں سب "فیک" ہوتا ہے کیا؟
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی وہ جدید طریقہ کار ہے جس میں مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی ویڈیو میں ایک شخص کے چہرے کے اوپر کسی دوسرے شخص کا چہرہ یوں آویزاں کر دیا جاتا ہے کہ ویڈیو میں پہلے کی بجائےدوسرا شخص وہی حرکات و سکنات کرتا ہوا محسوس ہو جو اصل ویڈیو میں پہلا شخص کر رہا تھا ۔اس عمل کے دوران تصویر کے ساتھ ساتھ آواز میں بھی ضروری تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ اس قسم کے مواد کو مختصراً ڈیپ فیکس کہا جاتا ہے ۔ اس سارے عمل کی جان مصنوعی ذہانت ہے۔ دراصل ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک خاص قسم کے مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرنے والے ایلگردھم کو دو چہروں کی ہزاروں تصاویر فیڈ کی جاتی ہیں۔ یہ الگورتھم "اِن کوڈر" کہلاتا ہے .
ان تصاویر کی معلومات کی بنیاد پر ان کو ڈر دونوں چہروں کی مشترکہ خصوصیات کی حامل "کمپریسڈ تصاویر" تیار کرتا ہے . اب یہ تصاویر ایک دوسرے ایلگردھم کو فیڈ کر دی جاتی ہیں، جسے ڈی کوڈر کہا جاتا ہے ۔ڈی کوڈر کو پہلے سے دی گئی معلومات کے مطابق تصاویر کو "ری کری ایٹ" کرنے کی لئے تربیت دی جاتی ہے ۔
اگر دوسرے شخص کی تصاویر پر "تربیت یافتہ" ڈی کوڈر کو پہلے شخص کی کمپریسڈ تصاویر کا ڈیٹا فیڈ کر دیا جائے تو وہ پہلے شخص کی ویڈیو دوسرے شخص کی معلومات کے مطابق تخلیق کر دے گا۔ یوں تصاویر یا ویڈیوز میں نظر آنے والے شخص کانہ صرف چہرہ بدل جاتا ہے بلکہ اس کی حرکات اور تاثرات بھی دوسرے کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔
ڈیپ فیک ہمارے لیے نعمت یا زحمت:
ڈیپ فیکس زیادہ تر تفریحی مقاصد کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ اگر کسی فلم یا ڈرامے کی عکس بندی کے دوران ہی کسی اداکار کا انتقال ہو جائے تو اس کی جگہ کسی دوسرے اداکار سے یہ کام لے کر دیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے چہروں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔
ڈیپ فیکس کا سب سے خطرناک استعمال ان کو پروپیگنڈا کیلئے مصرف میں لانا ہے ۔خاص طور پر مقامی اور بین الاقوامی سیاست میں ڈیپ فیکس کے استعمال سے اپنے مخالف کے ساکھ اور بیانیہ کو بہت نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ اگر ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کی گئی ویڈیو میں کسی معروف شخصیت یا سیاستدان کو کوئی غیر اخلاقی حرکت کرتے ہوئے دکھایا جائے تو نہ صرف
اس شخص کی سیاسی ساکھ تباہ ہو کر رہ جاتی ہے بلکہ
اس کے مخالفین کو بھی بے انتہا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے ویڈیوز تیار کرنا غیر قانونی نہیں لیکن اگر انہیں کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے استعمال کیا جائے تو ویڈیو کی صحت کے خلاف سرٹیفیکیٹ لے کر متاثرہ شخص قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہے ۔
دیپ فیکس کی شناخت کرنا بھی اتنا سہل نہیں ہے ۔ چند سال قبل ڈیپ فیک ویڈیو کی ایک پہچان یہ دریافت کی گئی کہ ان میں جس شخص کا چہرہ تبدیل کیا جاتا ہے اور انکھ نہیں جھکاتا کیونکہ ڈی کوڈر کو جتنی تصاویر فیڈ کی جاتی ہیں ان میں زیادہ تر میں آبجیکٹ کی آنکھ کھلی ہی ہوتی ہے ۔ جیسے ہی ڈیپ فیکس کی یہ خامی منظر عام پر آئی اگلے ورژنز میں اسے بھی دور کر دیا گیا۔
دیپ فیکس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی پیش رفت سامنے آ رہی ہے۔۔۔
اب دیکھیے یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمتا ہے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں یہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
یہ ٹیکنالوجی ہمارے لیے نعمت ثابت ہوگی یا زحمت۔۔۔مزید یہ کہ آیا ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں سب کچھ "فیک" ہوتا ہے۔۔۔اس کا جائزہ ہم اپنے آئندہ بلاگ میں بیان کریں گے۔