دین اور مذہب کا فرق
’دین‘ اور’ مذہب ‘ دو ایسی اصطلاحات ہیں جو عموماً ایک دوسرے کے متبادل استعمال ہوتی ہیں۔ عام گفتگو میں دین کے بھی وہی معنی مراد لیے جاتے ہیں جو مذہب کے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں شناختی کارڈ میں مذہب کا ایک خانہ ہوتا ہے جہاں مسلم اپنا مذہب اسلام لکھتے ہیں جبکہ غیر مسلم اس جگہ اپنا مذہب لکھتے ہیں۔
تاہم ان دونوں اصطلاحات پر گہرائی میں غور و خوض کرتے ہوئے بعض فقہا و علما اور اسلامی سکالرز نے ان میں فرق بھی بیان کیا ہے۔ اسی طرح لغوی اعتبار سے بھی ان دونوں میں فرق کیا گیاہے۔
’’دین‘‘ کی تشریح قرآن کی مدد سے:
قرآن مجید میں لفظ مذہب دیگر مذاہب مثلاً ہندو مت، عیسائیت وغیرہ کے لیے تو استعمال ہوا ہے لیکن اسلام کے لیے "مذہب" کا لفظ استعمال نہیں ہوا، بلکہ اس کے لیےہمیشہ "دین" کا لفظ ہی استعمال ہوا، قرآن مجید میں کم و بیش 79 بارلفظ "دین" اسی سلسےمیں مذکور ہے۔ قرآن حکیم میں نبی کریم ﷺ کی بعثت کا ذکرہوا تو "دین" کا لفظ استعمال کیا:
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ
’’ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں۔ ‘‘ [الصف - 9]
دوسری جگہ ارشادہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ
’’بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہے۔‘‘۔(سورة آل عمران . آیت19)
ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا
’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اورتم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔‘‘[المائدہ - ۵ ]
مندرجہ بالا تمام آیات قرآنی میں "دین" سے مراد ایک مکمل نظام زندگی ہے جو تمام پہلوؤں پر حاوی ہو۔
’’مذہب‘‘ کے معانی:
- دین کے مقابلے میں مذہب کا لفظ دین کے اجزا، کسی حصے اور مختلف احکامات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
- اسی طرح اسلام میں ہی مختلف فقہی مسالک اور ان کے آپسی اختلافات بیان کرتے ہوئے فقہا نے ان مسالک کے لیے عربی میں ’مذہب ‘ کی اصطلاح استعمال کیا ہے۔ چنانچہ فقہا کے ہاں مذہبِ امام ابو حنیفہ، یا مذہب امام شافعی، یا مذہب امام مالک یا مذہب امام احمد بن حنبل، سے مراد ان کی عبادات اور معاملات کے بارے میں شرعی رہنمائی ہے۔ دین تو صرف اسلام ہے۔
- دین اسلام اور دیگر ادیان کا تقابل کرتے ہوئے اسلام کے لیے’ دین‘ اور دوسرے ادیان کے لیے’مذہب‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ اسلام تو دراصل ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تاہم دیگر ادیان کامل نہیں ہیں اوربعض میں چند احکامات ہی موجود ہیں اور بعض صرف عبادات اور رسومات تک محدود ہیں۔ چنانچہ وہ نظامِ حیات جو کمال درجہ جامعیت کی شان کے ساتھ بیک وقت دنیا اورآخرت کو محیط نہ ہو اسے مذہب یا فلسفہ اور نظریہ تو قرار دیا جا سکتاہے، دین نہیں کہا جا سکتا۔
انسانی زندگی میں دین کی اہمیت:
۱۔ فطری ضرورت:
دین یا آسان الفاظ میں خدا سے انسان کا تعلق، انسان کا فطری جذبہ ہے،اس کا اعتراف غیرمسلم مفکرین نے بھی کیا ہے۔ انسان جب اس دنیا میں غور و فکر کرتا ہے ، اس کی خوبصورتی، اس کے نظام اور اس کی رنگارنگی پر غور کرتا ہے تو لامحالہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اسے بنانے والا کوئی ہے۔ اسی طرح زندگی میں اپنے معاملات انجام دیتے ہوئے انسان کئی مرتبہ اپنے آپ کو بے بس اور بے اختیار پاتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ کوئی ایسی ہستی ضرورہونی چاہیے جو ان مواقع پر اس کی مدد کرے۔ گویا یہ بات انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ کسی بلند ہستی سے رجوع کرے، جو زندگی کے دکھ سکھ میں اس کے لئے سہارا ہو اور تمام دنیا سے بڑھ کر اس کا ہمدرد وغمگسار ہو ۔
اسی طرح اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہےکہ انسان شروع ہی سے ایک نادیدہ ہستی کو اپنا خالق تسلیم کرکے اس سے مدد کا طلب گار رہا ہے۔ انسان نے اسی نادیدہ ہستی کو کبھی خدا،کبھی اللہ ، کبھی بھگوان کا نام دیا ہے۔ فطرت ہر انسان سے مذہب کا تقاضا کرتی ہے اور انسان مذہب کے بغیر کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا۔
خصوصاً غم وآلام میں تواسے مذہب کی اور بھی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ایک انسان جب مشکل حالات سے دوچار ہو کر مایوس ہو کر مذہب کی طرف رجوع کرتا ہے، خدا کے حضور حاضر ہوتا ہے ، مسجد میں جاکر سجدہ ریز ہوتا ہے یا مندر میں جا کر بھگوان کی مورتی کے سامنے گڑگڑاتا ہے تو اس کی روح پرسکون ہوجاتی ہے، اوراس کی پریشانیاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ ہردور میں جاہل سے لیکر عالم تک گدا سے لیکر بادشاہ تک ،متقی سے لیکر گناہ گار تک سبھی کسی نہ کیسی صورت میں مذہب کے مرہون منت رہے ہیں۔
۲۔ دین اور انسانی طرز زندگی:
دین کی انسانی زندگی میں اہمیت کا ایک اہم ثبوت یہ ہےکہ دین انسان کو ایک مخصوص طرز زندگی عطا کرتا ہے جو ایک ایسے شخص کے طرز زندگی سے یکسر مختلف ہے جو دین پر نہیں چلتا ۔ دین کے مختلف عقائد مثلاً توحید، رسالت اور آخرت یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس انسان کے لائف سٹائل ہی کو تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایسا شخص جس کا یقین اس بات پر ہے کہ یہ دنیا کی زندگی ہی سب کچھ نہیں بلکہ اس دنیا میں کیے جانے والے ہر اچھے اور برے کام کا ایک روز حساب دینا ہوگا۔ چنانچہ ایسا شخص دنیا میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا، کسی کا حق نہیں مارے گا، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا کیونکہ وہ یہ جانتا اور مانتا ہے کہ ایک روز ہر زیادتی کا بدلہ دینا ہوگا تو وہ ہر برے عمل سے باز آجائے گا۔ اسی طرح اسے یہ معلوم ہوگا کہ یہ تو آزمائش کی جگہ ہے اور یہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل کر زندگی گزاری جائے تب ہی اخروی زندگی میں کامیابی و کامرانی مقدر ہوسکتی ہے لہٰذا وہ ایسے ہر راستے سے اجتناب کرے گا جو اسے دین سے دور کرکے شیطان کی جانب لے جانے والا ہے۔
اس کے برعکس جس شخص کا تمام تر مطمح نظر صرف یہی دنیوی زندگی ہے اس کے نزدیک تو بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست والا معاملہ ہے ۔ وہ کسی کا حق کیونکر پہچانے گا اور کسی پر ظلم کرنے سے کیونکر باز رہے گا۔
۳۔ دین بحیثیت منبع اخلاق و کردار:
مذہب ایک اخلاق ساز قوت ہے۔ معاشرہ میں وہی اچھا ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔ انسانی اخلاق کا معاشرتی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے ۔ ایک معاشرہ مالی طور پر خواہ کتنا ہی ترقی پذیر یا ترقی یافتہ کیوں نہ ہو اگر اس معاشرہ کے افراد بداخلاق ہوں تو اس معاشرہ کو بہترین معاشرہ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ انسان کی باہمی زندگی کا تعلق اخلاق ہی سے ہے اور اخلاق تمام معاملات کی ابتداء ہے۔
الحادی تہذیب کے برعکس دنیا کے ہر مذہب نے بنیادی انسانی اخلاقیات کو ازلی و ابدی قرار دیا ہے اور ان پر کاربند رہنے کی اپنے پیرووں کو نصیحت کی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار دین یا مذہب ہی کا انسانیت کے لیے تحفہ ہیں۔ سچ بولنا، حق کا ساتھ دینا، بہادری و شجاعت، غیرت و حمیت، راستبازی، امانت داری ، عہد و پیمان کی پابندی یہ تمام ایسی اخلاقیات ہیں جن کے لیے حضرت انسان کو دین کا شکرگزار ہونا چاہیے۔
۴۔ دین ایک معاشرتی ضرورت:
انسان تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتا وہ مل جل کررہنے پر مجبور ہے۔ بالفاظ دیگر یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان معاشرتی زندگی کا محتاج ہے۔ اور کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک وجود میں نہیں آتا جب تک اس معاشرے کے رہنے والوں کا مقصد حیات ایک نا ہو۔ اور وہ مقصد حیات دین یا مذہب ہی کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ اور دین یا مذہب ہی کیسی معاشرے کے اصولوں اور قوانین کو مرتب کرتے ہیں ۔
خلاصہ کلام:
اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ دین کے بغیر ایک بہترین انسانی زندگی کا تصور ہی عبث ہے۔ دنیا کی ہر اچھائی اور اخلاق کا منبع اول ذات خداوندی اور اس سے پھوٹنے والی روشنی یعنی دین ہے جو اس کے احکامات، عبادات اور دنیا کے معاملات چلانے کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اگر دین کو انسانی زندگی سے نکال دیا جائے تو چنگیزی باقی رہ جاتی ہے یا وحشت۔
اسی طرح تمام ادیان یا مذاہب میں اسلام وہ دین ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور جس پر چلنے ہی میں انسانی زندگی کی بقا بھی ہے اور اس کا عروج بھی۔ اب یہ مسلمانان عالم پر منحصر ہے کہ وہ اپنے دین پر نہ صرف خود عمل کریں بلکہ آگے بڑھ کر اس کا پیغام تمام انسانوں تک پہنچانے کی تگ و دو بھی کریں تاکہ دنیا اس بابرکت دین کے ثمرات سے مستفید ہوسکے، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق مرحمت مرمائے۔ آمین!