دسمبر مجھے راس آتا نہیں
کئی سال گزرے
کئی سال بیتے
شب و روز کی گردشوں کا تسلسل
دل و جان میں سانسوں کی پرتیں الٹے ہوئے
زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے
چٹختے ہوئے خواب
آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتے ہیں
مگر میں اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو
بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کر
اب تک وہی جستجو کا سفر کر رہا ہوں
گزرتا ہوا سال جیسا بھی گزرا
مگر سال کے آخری دن
نہایت کٹھن ہیں
مرے ملنے والو
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھ آئے
تو ملنا
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہوا دل
دھڑکتا تو ہے مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں