کیا دوبارہ جنم لینے والی داعش کا اگلا ہدف پاکستان ہے؟

کیا ’داعش‘ دوبارہ زندہ ہوچکی ہے؟؟گزشتہ دو ماہ کےدوران افغانستان کے مختلف شہروں میں ایک مرتبہ پھر ایسے دھماکوں کی گونج سنائی دی ہے جو بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم داعش کا انداز  ہیں۔ ایک نسبتاً طویل خاموشی کے بعد داعش کا دوبارہ زندہ ہوجانا دنیا کے سب امن پسند انسانوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔کیا انسانی زندگی کی قدروقیمت سے ناواقف اور اپنے مخالفوں کو تکفیری حربوں سے نیست و نابود کردینے والی داعش ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔ اور اب اس کا ہدف کیا ہے:پاکستان، افغانستان یا اس سے آگے کچھ اور؟؟

داعش کے انتہا پسندانہ  نظریات:

عراق، شام، افغانستان، پاکستان، ایران، صومالیہ، الجیریا اور جانے کہاں کہاں۔  افرا تفری، تباہی ، بربادی، خانہ جنگی، بد امنی ، مار دھاڑ کو اپنی خوراک بنا کر پنپنے والی داعش دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں اسلامی دنیا کو وہ نقصان پہنچا چکی ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خون کی ندیوں میں اپنی کشتی چلاتی اس جماعت کے نظریات کیا ہیں، یہ براہ راست تو ہم تک نہیں پہنچ رہے۔ البتہ ان کے افعال اور تھوڑی بہت جو معلومات ہیں ان پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ احادیث پر کھڑے عقائد ہیں، جنھیں خود امت مسلمہ کے پرامن گروہوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔  مغربی طاقتوں  کے مظالم کے خلاف بغاوت ہے،عالم گیر خلافت کا نظریہ ہے اور تکفیر یعنی جس کو وہ باطل سمجھتے ہیں، اس کو آخر درجے میں ختم کرنے کا جذبہ۔ ان عوامل نے مل کر داعش کو کھڑا کر رکھا ہے۔ 

داعش کی ابتدا کیسے ہوئی؟          

مصنفین ، جے ایم برجر اور جیسکا سٹرن نے اپنی تحقیقی کتاب:  آئی ایس آئی ایس: دی اسٹیٹ آف ٹیرر ، اور فواز اے جیرجس  آئی ایس آئی ایس: اے ہسٹری میں ،  اس گروہ کے شروع کے قدموں کے نشانات میں ایک اردنی شخص ابو مصعب الزرقاوی  کی قیادت کو دیکھا ہے۔  انہیں داعش کا بانی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے 1992 میں  انہیں اردنی  پولیس نے گرفتار کر کے بدنام زمانہ الجعفر قیدخانے میں ڈال دیا تھا۔  اس قید خانے میں انہیں پندرہ سال کی قید کاٹنا تھی۔ الزرقاوی کا جرم تھا  کہ وہ اپنے کچھ ساتھیوں سمیت اسرائیل پر حملے کی تیاری کر  رہے تھے۔ چونکہ اردن اسرائیل کے ساتھ الجھنا نہیں چاہتا تھا لہٰذا وہ اپنے کسی شہری کو اس کے خلاف اقدام بھی نہیں کرنے  دینا چاہتا تھا ۔   یہ خیال کیا جاتا ہے کہ  الزرقاوی نے اسی جیل میں اپنے کچھ پیروکار جمع کر  لیےتھے۔ 1999 میں اردنی بادشاہ شاہ حسین کے بعد جب شاہ عبدللہ تخت نشین ہوئے تو انہوں نے بہت سے قیدی رہا کیے جن میں ابو مصعب الزرقاوی بھی شامل  تھے۔  رہائی کے بعد الزرقاوی افغانستان  پہنچے جہاں  انہوں نے مبینہ طور پر اسامہ بن لادن سے مل کر   جنگجووں کی تربیت گاہ ہرات میں قائم کی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن الزرقاوی سے ملنا نہیں چاہتے تھے اور  ان کے بارے تحفظات رکھتے تھے۔ بحر کیف زرقاوی بن لادن سے ملے بھی اور اور انہیں نو گیارہ کے بعد عراق میں القاعدہ کی شاخ قائم کرنے کے لیے  بھیجا بھی گیا۔

عراق میں اس وقت بعث پارٹی کے صدام حسین کی حکومت تھی ۔ وہ جابر آمر کی طرح عراق  کی صدارتی کرسی پر براجمان تھے۔ وہ ایران اور کویت سے جنگیں لڑ چکے تھے اور بڑے پیمانے پر اپنے مخالفین کا قتل عام کروا چکے تھے۔ 2003 میں جب امریکہ عراق میں ویپن آف ماس ڈسٹرکشن (بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں) کی موجودگی کا بہانہ بنا کر حملہ آور ہوا تو اس نے صدام حسین  کو تخت سے تختہ دار پر  لٹکا دیا۔

داعش عراق میں:

الزرقاوی ایک شاطر دماغ شخص تھا۔ جنگ اور بد امنی جہاں عام عوام کے لیے موت و شر کا پیغام لاتی ہے وہیں  کئی شاطر دماغوں کے لیے سنہرے موقعے بھی فراہم کر جاتی ہے۔ الزرقاوی نے عراق پر امریکی حملے  اور پھر صدام حسین کی پھانسی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے اسلامی دنیا میں  امریکہ مخالف جذبات پر اپنی دکان چمکانا شروع کی۔ عراق میں صدام سنی مسلک سے تھے جبکہ بیشتر عوام شیعہ مسلک کے رجحانات رکھتی تھی۔   جب امریکہ  نے صدام حکومت ہٹائی تو الزرقاوی نے سنی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس مسلک  کی اقلیتی مگر بااثر عوام کو باور کروانا شروع کیا کہ ان کے وجود کو خطرہ ہے۔ امریکہ   شیعہ مسلک کے لوگوں کی حکومت لے آئے گا جو ان پر عرصہ حیات تنگ کر  دے گی۔ ایرانی حمایت یافتہ البدر بریگیڈ جیسے شیعہ مسلح گروہ الزرقاوی کے دعووں کی تائید بھی کرتے تھے۔  سونے پر سہاگا 2005 میں امریکہ نے جو عارضی حکومتی سیٹ اپ بنوایا اس نے  بیک جنبش قلم ایک لاکھ سے زائد بعث پارٹی کے عہدے داران، جرنیل، اور دیگر اہلکار فارغ کر دیے۔ باث پارٹی کےیہ منجھے ہوئے، آٹھ سال کی ایران عراق جنگ، پھر عراق کویت جنگ اور امریکی  مزحمت سے پلے ہوئے بیشتر اہلکار اور عسکری عہدے دار الزرقاوی سے جا ملے۔ بس ان تمام عوامل نے مل کر الزرقاوی کے ہاتھ مضبوط کر دیے اور وہ عراق میں مضبوط جڑ پکڑ گئے۔  کہا جاتا ہے کہ الزرقاوی کے تعلقات 2006 تک آتے آتے القاعدہ سے خاصے کمزور پڑ چکے تھے۔ وہ القاعدہ کے طریقہ کار سے ہٹ کر بہت سی کارروائیاں کر رہے تھے۔ ایک تو وہ جب کسی امریکی اہلکار کو قتل کرتے تو اسے گوانتاناما کے قیدیوں کا سا نارنجی لباس پہنا کر اس کی ویڈیو بناتے اور اسے خوب پھیلاتے۔  دوسرا وہ شیعہ مسلک کے لوگوں کو اسلام سے خارج قرار دے کر ان کا قتل عام کروا رہے تھے۔  یہ بھی القاعدہ کا طریقہ کار نہیں تھا۔

 2006 میں الزرقاوی امریکی فضائی حملے میں مارے گئے اور ان کے بعد ابو ایوب المصری نے اس گروہ کو پہلی بار  دولت اسلامیہ کا نام دیا۔ ابو  عمر البغدادی کو اس گروہ کا سربراہ مقرر کیا۔  2011 تک داعش عراق میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔

داعش شام میں:

2011 کے فروری میں شام کے شہردرا میں صدر حافظ الاسد کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔ بشارالاسد کی حکومت نے مخالفین کے قتل عام کا آغاز کیا تو چیزیں تیزی سے خانہ جنگی کی طرف سرک گئیں۔ شمال میں کرد اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ماندہ ملک میں آزاد شامی فوج کے گروہ۔ ہمسایہ ملک  عراق میں بیٹھے دولت اسلامیہ کے شاطر دماغوں کو نظر آیا موقع۔  اس وقت اس گروہ کی سربراہی  ابوبکر البغدادی کے ہاتھ میں تھی۔  ان کے قابل اعتماد  ساتھی ابو محمد الجولانی  پہنچے شام۔ یہاں قائم ہوا جبۃ النصرہ نامی  گروہ جو کہ النصرہ فرنٹ کے نام سے قائم ہوا۔ خود کش حملے اور پرتشدد واقعات، یہ اس گروہ کا ٹریڈ مارک تھا۔ لیکن اس گروہ کا  میڈیا سیل بہت ہی  قابل اور پر اثر تھا۔  وہ نہایت عمدگی  سے اس گروہ کے نظریات اور کامیابیاں دنیا تک پہنچا رہا تھا۔

مسلم دنیا سے رضاکاروں کی داعش میں شمولیت:

2014 وہ سال تھا جب ابو بکر البغدادی نے عراق میں موصل اور شام میں رقہ کو اپنا مرکز بناتے ہوئے دولت اسلامیہ عراق و شام کا اعلان کر دیا۔ بس اسلامی حکومت کے قیام کا سننا تھا کہ بہت سے اسلام سے محبت رکھنے والے اور خلافت پر یقین رکھنے والے مسلمان   عراق و شام کا رخ کرنے لگے۔ یہ لوگ صرف اسلامی ممالک سے نہیں  آ رہے تھے۔ بلکہ بہت سے ان میں سویڈن، ڈنمارک، برطانیہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں اپنی  پر امن اور پر سکون زندگیوں کو خیر باد  کہہ کے آ رہے تھے۔ ان میں ڈاکٹر تھے، انجینیر تھے، پروفیسر تھے اور  جانے کیسے کیسے زرخیز دماغ۔ سب اسلامی ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنے آ رہے تھے۔ آہ کہ دجل تھا کہ سب نگل گیا۔   داعش کا رخ صرف مردوں ہی نے نہیں کیا۔ بلکہ خواتین بھی ان کے شانہ بشانہ تھیں ۔  دولت اسلامیہ عراق و شام کا رخ کرنے والی کچھ خواتین کے حالات زندگی اور تجربات پر مبنی ازاد ہ مونی AZADEH MOAVENIکی کتاب میں کچھ یوں درج ہے:

2013 میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین اس ارض موعودہ پہنچیں۔ وہ  شمالی افریقہ اور ماندہ مشرق وسطیٰ سے آ رہی تھیں ،وہ روس، یورپ اور وسطی ایشیا سے آ رہی تھیں۔ اسی طرح امریکہ، آسٹریلیا اور چین سے بھی پہنچ رہی تھیں۔یورپ سے خلافت کا رخ کرنے والوں میں سترہ فیصد خواتین تھیں۔   وہ تعلیم یافتہ سفارتکاروں کی بیٹیاں تھیں، تربیت حاصل کرتی ڈاکٹر تھیں، نو عمر لڑکیاں تھیں، غریب اور کم آمدن والی گھریلو خواتین تھیں۔

یہ سب  اسلامی دنیا کا سرمایہ دولت اسلامیہ پہنچا اور جلا دیا گیا۔ داعش ایک سخت گیر جماعت تھی۔ وہ  ظالم مغربی طاقتوں سے کیا لڑتی، اس نے ہر اس مسلمان کو، جو اس سے اختلاف کرے ، کافر قرار دے ڈالا۔ بس اس نے اپنے کافروں سے جنگ کا آغاز کیا اور آج تک جاری ہے۔ اس جنگ کا ایندھن بہت سے خدا کے احکامات کے مطابق بسی دنیا کے متلاشی افراد ہیں۔

2014 میں خلافت کے قیام کے بعد امریکہ نے سعودیہ عرب، ایران اور دیگر طاقتوں سے مل کر دولت اسلامیہ کے خاتمے کا آغاز کیا۔ 2017 میں اس سے نجات کا اعلان کر دیا گیا۔ لیکن ماہرین متفق تھے کہ داعش کے جنگجو عراق و شام سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔حالیہ دنوں میں ہونے والے ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں دھماکے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ گروہ پاکستان میں فتنے کا بھی پلان بنائے  بیٹھا ہے۔ امید ہے کہ دنیا کے مسلمانوں اور انسانوں کو ایسے فتنہ پردازوں سے نجات مل جائے گی  ۔ دنیا میں صرف اسی  صورت میں ہی امن کی طرف قدم  اٹھایا جا سکے گا۔

القاعدہ کی تاریخ پر مبنی ایک مختصر ڈاکومنٹری آپ ذیل کے لنک میں دیکھ سکتے ہیں:

 

متعلقہ عنوانات