ڈے کیئر

وہاں ہمیشہ میلہ لگارہتاتھا ۔کھوے سے کھوا چھلتا۔ خلقت یوں امڈی آتی تھی جیسے مفت کچھ بٹ رہاہو۔ لیکن مفت کچھ بٹتاہوتاتو کیاسب کے چہرے ایسے ہوتے ؟ سُتے ہوئے، متردد آنکھوں والے ، موت کی پرچھائیاں جن پر رقص کرتی ہوتی تھیں ۔ اپنی موت کی نہیں تو کسی عزیز کی موت کے اندیشے کی ۔ کہیں امید وبیم کی دھوپ چھاؤں کے درمیان، توکہیں صرف اندھیروں کے درمیان۔
وہ نوجوان لڑکی اپنی خوبصورت آنکھوں میں ایک کربناک کیفیت لئے بڑے صبر کے ساتھ کرسی پربیٹھی اپنا نام پکارے جانے کاانتظار کررہی تھی۔ اس کے بغل والی کرسی پرکسی نے رومال ڈال کر اپنی جگہ مختص کردی تھی ۔
’’میں یہاں بیٹھ جاؤں؟‘‘ اچانک وہ سوال ، جو گرچہ نہایت ملائمیت اورشائستگی کے ساتھ کیاگیا تھا اس کی سماعت پر ہتھوڑے کی طرح پڑا۔ چونکنے کے باوجود وہ خاموش رہی ۔ اس کے ریشے ریشے میں ایک سُن ہوجانے والی کیفیت سمائی ہوئی تھی ۔
سوال دوبارہ دوہرایاگیا ۔ اس مرتبہ بڑی ہی نرمی کے ساتھ اس کے شانے پرہاتھ رکھ کر۔ اس لمس کی ایک زبان تھی ، گونگی زبان جواس لڑکی کے وجود میں اترنے میں کامیاب رہی تھی ۔
اس نے آنکھیں اٹھائیں ۔ سوال کرنے والی عورت عمر میں اس سے خاصی بڑی تھی ۔ کوئی چالیس کے پیٹے میں ۔ یاشاید کچھ اورزیادہ ۔
’بیٹھ جائیے۔‘اس نے رسان سے کہا۔ ’یہاں ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔ آئیں گے تو اٹھ جائیے گا۔‘بڑی عورت رومال سرکاکر بیٹھ گئی۔ ہال ائرکنڈیشنڈتھالیکن بھیڑ کی وجہ سے اس کاتاثر کم ہوگیاتھا ۔پسینے اوردواؤں کی بو الگ رچ بس گئی تھی ۔ عورت کو محسوس ہوتاتھا اس بڑے کمرے میں ایک اور بے نام مہک ہواکرتی ہے جو سب سے الگ ہوتی ہے۔ اتنی عمر گذارلینے کے باوجود اس نے پہلے کبھی ایسی مہک نہیں سونگھی تھی ۔ دبے پاؤں آتی موت کی مہک۔ آج بھی ایک اسٹریچر سرکاکر دیوار سے لگایا ہواتھا۔اس پر پڑا ایک شخص گویا اپنی آخری سانسیں گن رہاتھا ۔ اس کے جسم میں کئی دوائیں داخل کی جارہی تھیں۔ پاس ہی ایک عورت اسٹریچر کی پٹی پکڑے کھڑی تھی ۔ دونوں بہت غریب ، بے حد مسکین ۔یقیناً یہ مہک انکے پاس سے آرہی تھی ۔ عورت جب جب اپنی باری پریہاں آئی تھی، اس طرح کوئی نہ کوئی اسٹریچر اسے ضروردکھائی دیا تھا۔ کبھی ادھرادھر پہنچایا جاتا۔ کبھی دیوار سے لگاکر کھڑا کیاہوااور اسے ہربار یہ خیال آیاتھا کہ ایسی حالت میں توآرام سے مرنے دیاجاتا تو بہترتھا۔ اتنی اذیت کے بدلے چند سانسیں دے کرکیاملتاہے ؟فضا میں موت کے قدموں کی چاپ یوں سنائی دیتی ہے جیسے کوئی تھکاہوا دل آہستہ آہستہ کانوں میں آکر دھڑک رہاہو۔
گھٹن ناقابل برداشت تھی ۔ رومال رکھ جانے والا بھی ابھی نہیں آیاتھا ۔ دوسرے کی سیٹ پرقابض ہونے کے خفیف سے احساس جرم کے ساتھ وہ عورت وہیں بیٹھی تھی ۔ایک عدم تحفظ کااحساس بھی تھا ۔ ابھی وہ آجائے گااوراسے اٹھنا پڑے گا۔ جیسے اس کے عزیز کانام پکارے جانے پر خوداسے بھی سیٹ چھوڑنی ہوگی۔ ہم سب اپنی اپنی طلبی کے منتظرہیں۔ اس نے دلگرفتگی کے ساتھ سوچا۔۔۔اندر اٹھتے سناٹے سے گھبراکروہ بغل میں بیٹھی لڑکی کی طرف مڑی ۔
کون بیمار ہے ؟‘‘
’’میرے شوہر‘‘اس نے مختصر جواب دیا۔
’’تمہارے شوہر؟‘‘ بڑی عورت نے حیرت سے دوہرایا۔’’ تمہاری شادی ہوچکی ہے ؟ ذرانہیں لگتاکہ تم شادی شدہ ہو۔تمہارے شوہر بھی بالکل کم عمر ہوں گے۔‘‘اس کے لہجے میں دلی تاسف تھا۔ چچ چچ !‘
لڑکی نے ٹھنڈی سانس لی۔ سیاہ آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک لرزی، جیسے گھنے بادلوں کے پیچھے سے بجلی کی خفیف سی روشنی کااحساس ۔ وہ خاموش رہی۔ یہاں ہرشخص بول رہاتھا لیکن کسی کوکسی کی آواز نہیں سنائی دیتی تھی ۔ دلوں میں سناٹا پسراپڑارہتاتھا بے کراں اورلامتناہی ۔ بیک وقت موجود اس سناٹے اور شور کے درمیان ڈے کےئر وارڈ کے دروازے پر کھڑے باوردی گارڈکی آوازمائک پر گونجتی ۔ وہ لوگوں کے نام پکارتاتھا۔کسی کے مریض کی کیموتھریپی مکمل ہوچکی ہوتی تو اس کے کاغذات لے کر اسے واپس لے جانا ہوتا۔ کسی کے لئے جگہ خالی ہوئی ہوتی تومریض کولے کر اندر پہونچانا ہوتا۔ کیموکے درمیان بھی کبھی ساتھ آئے نگراں کی ضرورت پڑجایاکرتی تھی۔ ذرا کی ذرا گارڈ کی کرخت آواز باقی آوازوں پرحاوی ہوجاتی، پل بھر کوسناٹا چھاجاتا۔پھر انتظار کررہے ہراساں لوگوں میں سے باری آجانے والا شخص ہڑبڑاکراٹھتا۔
روکیاکھاتُن۔۔۔روکیاکھاتُن۔۔۔۔مائک کھڑکھڑایا تھا ۔
لمبی داڑھی اورملگجے کرتے والا ایک نہایت تھکا تھکا ساشخص چوکنا ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔حلئے بشرے سے آس پاس کے کسی دیہات سے آیاہوا لگتا تھا۔ ویسے تواس عظیم الشان شہر میں بھی اس طرح کے لوگوں کی کمی نہیں تھی ۔ یہاں وہ بھی تھے جو سرسبز درختوں کے درمیان گھرے پرسکون ، کشادہ اور خوبصورت بنگلوں میں رہتے تھے اوروہ بھی جو علی الصبح ٹھیلہ لے کران بنگلوں میں سبزیاں اور پھل پہنچایا کرتے تھے ۔ وہ بھی جو کامن ویلتھ گیمزکے دوران عالیشان ہوٹلوں میں ٹھہرے تھے ۔ اوروہ بھی جنہوں نے سخت مشقت کرکے ان کے لئے شہر کو دلہن کی طرح سجایاتھا اورپھر نکال کرباہر کردیے گئے تھے کہ رہ جاتے تو دلہن کے چہرے پر برص کے داغ کی طرح ابھر آتے ۔ اس لئے کسی کی صورت دیکھ کر کوئی کیاسمجھ پاتاکہ وہ کہاں رہ رہاہے ۔کسی گاؤں میں یا بڑے شہر کی جھونپڑپٹی میں ۔
اعلان کے بعد گارڈ نے چند لمحوں کاتوقف کیااور اس کے بعدباہر آگیا۔اس نے مائک اپنے اسٹول پر چھوڑدیاتھا۔
’’روکیا کھاتُن کون ہے ؟‘‘بھیڑکے درمیان گھس کر اس نے زورسے آواز لگائی ’’جلدی کیجئے، آپ لوگ پکارنے پردھیان نہیں دیتے دوائی شروع ہونے میں دیر ہوتی ہے‘‘۔ گواس کی آواز تیز تھی لیکن لہجہ نرم تھا۔ نرم اورہمدرد۔
اسی ہسپتال کے دوسرے شعبوں میں وارڈ بوائے اورنرسیں اتنے نرم خونہیں تھے ۔ ایک مرتبہ دواؤں اورپرہیز کی وضاحت کردینے پر بات سمجھ میں نہ آئے اورمریض دوبارہ پوچھ بیٹھے توخاصے ناراض ہوتے تھے ۔’’ارے کیاہم صرف تمہارے لئے نوکری کررہے ہیں ؟اتنے لوگ اور جوانتظار کررہے ہیں ان کاکیا ؟‘‘ ایک مرتبہ ایک شخص کہہ بیٹھا ’’میڈم اتنی دیرتک ڈانٹنے سے اچھاتھا کہ ایک بار اورسمجھادیتیں‘‘ نرس نے اسے خشمگیں نظروں سے گھورا اورآگے بڑھ گئی ۔ وہ بے چارہ ایک ایک کوپکڑپکڑ کرپوچھنے لگا کہ کتنی بار دوا کھانی ہے اوردوبارہ انجکشن لینے کب آنا ہے۔ بہت دیربعد ایسا شخص مل سکا جوپڑھا لکھابھی تھا اور مہربان صفت بھی ۔ ویسے کئی پڑھے لکھے ایک نظر ڈال کراس لئے بھی آگے بڑھ گئے تھے کہ کام کے دباؤ پرنسخہ لکھنے والے ڈاکٹروں کی گھسیٹی گئی جناتی تحریر پڑھ لینا سب کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔لیکن اس شعبے کے ڈے کےئرکاعملہ نہایت نرم خواور خلیق تھا۔ سب جانتے تھے کہ یہاں جوآیا ہے اس کا ٹکٹ کٹ چکاہے بس دوپاٹوں کے بیچ پس رہے چنے کے دانوں میں سے کوئی کوئی ہی بچ نکلے گا اورلوگ کہیں گے ، ہاں بھائی جاکوراکھے سائیاں۔۔۔سائیاں کورکھنا ہوتو اس مرض میں مبتلا ہی کیوں کریں۔
گود میں بڑی بڑی آنکھوں اورزرد چہرے والی تین چار برس کی لاغربچی کولئے وہ شخص اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’شاید ہمیں کو کہہ رہے ہیں۔رقیہ خاتون کو بلا رہے ہیں‘‘۔
’’ہاں چلئے جلدی کیجئے‘‘گارڈ نے بچی کی طرف پیار سے دیکھا۔۔اس شخص نے تیز تیز چلتے ہوئے بچی کے ساتھ ہاتھ میں پکڑی فائل سنبھالی۔ہڑ بڑائی ہوئی رفتار کے باوجود بچی کا منہ چوما۔پھر وہ بدبدایا۔
’’پتہ نہیں کیسے کیسے نام بولتے ہیں گارڈ جی۔ ہماری سمجھ میں ایک بار بھی نہیں آیا۔سسٹر ناراض ہوں گی ٹائم کھوٹا ہورہا ہے ان کا ۔‘‘
’’کیسی چھوٹی سی، معصوم سی بچی ہے۔‘‘بڑی عمر والی عورت پھر بولی۔
کچھ لوگ دکھ میں خاموش رہتے ہیں کچھ بول بول کر جی ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ عورت فطرتاً خاموش طبیعت تھی لیکن اب باتونی ہوگئی تھی۔اسے لگتا تھا خاموش رہی تو کلیجہ پھٹ جائے گا۔
نوجوان لڑکی سر نیچا کئے بیٹھی تھی۔اس نے پھر آنکھیں اوپر اٹھائیں۔
’’میری بیٹی بھی اتنی ہی بڑی ہے‘‘اس کی آواز میں آنسوؤں کی کھنک تھی۔
’’ارے رے رے۔کس کے پاس چھوڑ کر آئی ہو؟‘‘
’’ماں کے پاس چھوڑ دیا ہے۔دوسرے شہر میں رہتی ہیں۔یہاں ان کی وجہ سے ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتی تھی۔بچی رُل رہی تھی۔‘‘
ایسا لگا جیسے اجنبی دیار میں جہاں نفسی نفسی کاعالم تھا،ایک غیر متوقع ہمدرد کی موجودگی نے لڑکی کے ضبط کا باندھ توڑدیا تھا اور اس کی گونگی زبان بھی بول پڑی تھی۔
’’ایک اتنی ہی بڑی بچی کو میں نے آنکھ کے کینسر میں مبتلا دیکھا۔درد سے سر پٹک رہی تھی۔اس کی ماں ہاتھ مل مل کے رو رہی تھی۔اس کے چہرے پر ایسی بے بسی تھی کہ ایک نرس وہیں دھپ سے اس کے پاس بیٹھ گئی اور خود بھی رونے لگی۔‘‘بڑی عورت نے کہا۔
’’بس کیجئے۔یہاں اپنے دکھ کافی ہیں رونے کے لئے‘‘نوجوان عورت کی آواز میں دبا دبا غصہ تھا۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ہمیںآپ کو یہ سب نہیں سنانا چاہئے تھا۔‘‘بڑی عورت نے کہا اور خاموش ہوگئی۔
نوجوان لڑکی کو کچھ افسوس ہوا۔آخر اس کا بھی تو کوئی نہ کوئی بیمار ہے۔عمر میں اس سے بڑی بھی ہے۔اس سے اس طرح جھڑک کرنہیں بولنا چاہئے تھا۔جو وہ بتا رہی تھی اس طرح کے نظارے تو آنکھوں کے سامنے روز آتے رہتے ہیں۔اس نے اپنی بدتمیزی کا کچھ تدارک کرنا چاہا۔بڑی نرمی سے پوچھا:
’اور آپ کس لئے آئی ہیں؟کون بیمار ہے آپ کا؟‘
’ میرا گیارہ سال کا بیٹا۔کیمو چل رہی ہے اس کی‘۔
’اوہ!‘نوجوان لڑکی اندر سے ہل گئی۔ایک عورت کے لئے اولاد اس کے سہاگ سے بھی بڑی ہوجاتی ہے۔اسے اپنی بچی یاد آئی جسے وہ ماں کے پاس چھوڑ آئی تھی کہ شوہر کی بیماری کی وجہ سے وہ نظر انداز ہورہی تھی۔ہمہ وقت شوہر کے ساتھ لگے رہنے اور اداس ودلگرفتہ ہونے کے باوجود ایک لمحے کو بھی بچی ذہن سے اوجھل نہیں ہوتی تھی۔
’آپ کے پتی؟‘اس نے بات جاری رکھنی چاہی۔
’’بچے کے ساتھ ہیں۔ابھی باہر لے گئے ہیں۔ہم لوگ سویرے سات بجے ہی آگئے تھے۔معلوم ہوا بارہ بجے کے بعد نمبر آئے گا۔‘‘
دونوں کے درمیان ایک گہری خاموشی نے پیر پسار دئے۔ہال آوازوں سے گونجا کیا۔
پھر بڑی عورت نے ہی خاموشی توڑی۔
’’وہ ہماری اکلوتی اولاد ہے۔بڑی منت مرادوں کے بعد پیدا ہوا۔دوا کر کرکے ہار گئے تھے۔سارے پیر فقیر سنت اولیا بھی منا لئے۔بالکل مایوس ہو چکے تھے تبھی اچانک بارہ برس بعداوپر والے نے ہماری گود بھر دی۔مگر کیوں؟ کس لئے؟شاید یہ جتانے کے لئے کہ اس کی مرضی نہ ہو تو اس سے ضِد کرکے کچھ نہیں مانگنا چاہئے۔بے اولاد ہونے کا دُکھ تو اس دُکھ سے بہتر تھا۔‘‘
نوجوان عورت پھر اندر سے ہل گئی۔ایک اولاد،وہ بھی شادی کے بارہ برس بعد اللہ آمین کا بچہ۔
بڑی عورت خاموش نہیں ہوئی تھی۔اس کی بات جاری تھی۔
’’ہم سخت وجیٹیرین تھے۔انڈا تک ہمارے گھر نہیں آتا تھا۔ڈاکٹر نے کہا لڑکے کو پروٹین زیادہ دینے ہیں۔ہم نے اسے نان ویج کھلانا شروع کیا۔ایک آدھ بار ہوٹل سے لائے۔لیکن پھر سوچا ڈاکٹر نے انفکشن سے خبردار کیا ہے۔اس لئے ہم نے گھر ہی میں بنانا شروع کردیا۔اولاد کے لئے ہم نے دھرم ا ٹھا کے طاق پر رکھ دیا۔اب ہمارے گھر کے اندر انڈا مرغا سب بن رہا ہے۔کوکری کلاس جوائین کرکے یہ سب بنانا سیکھا۔طرح طرح کی ڈشیں بناتے ہیں۔اپنے ہاتھ سے تھالی پروستے ہیں۔ہاتھ سے نوالہ بنا کر منہ میں دیتے ہیں۔شوق سے کھاتا ہے۔جتنے دن بھی اس کی سیوا کا سکھ پالیں۔‘‘اس کی آواز میں اب کوئی تاثر نہیں تھا۔اس کا غم شدت کی اس انتہا کو پہنچ گیا تھا جہاں سب کچھ شونیہ میں گم ہو جاتا ہے۔
کھرکھراتی ہوئی آواز میں تبھی اس نے اشارہ کرتے ہوئے کہا’’وہ رہے باپ بیٹا۔ سوا بارہ بج بھی رہے ہیں۔اب نمبر ضرور آجائے گا۔میرا بچہ،میرا غریب معصوم بچہ۔ہر تین ہفتہ پر تکلیف اٹھاتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں ففٹی ففٹی چانس ہے۔‘‘
نوجوان عورت نے اس طرف دیکھا۔دیکھنے میں ذرا نہیں لگ رہا تھا کہ بچہ بلڈ کینسر کا مریض ہے۔گورا،چٹاّ،مزے کے ڈیل ڈول والا۔بس آنکھوں میں زردی کھنڈی ہوئی تھی اور سرگھٹا ہوا تھا۔کیمو تھیریپی کے ردعمل سے بال گر جانے پر بہت سی عورتوں تک نے سر منڈوا کر اسکارف باندھے ہوئے تھے۔
نوجوان عورت نے گلے میں کچھ پھنستا ہوا محسوس کیا اور پلکیں جھپکا کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔
اسی وقت مائک کھڑکھڑایا اور گارڈ نے کچھ کاغذات پر نظر دوڑاتے ہوئے آواز لگائی ’’اکھیل، اکیِل۔۔۔اوہ اکِل۔۔۔اکھیل کے گھر والے آجائیں۔‘‘
بڑی عورت بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئی ’’آجاؤ بیٹا تمہارا نمبر آگیا ہے۔‘‘
نوجوان عورت بھی اسی اضطراری کیفیت کے تحت اٹھ گئی تھی۔
’’نہیں یہ عقیل کے لئے کہہ رہا ہے،میرے شوہر کے لئے۔وہ بیڈ پر ہیں۔دوا چڑھ رہی ہے۔کچھ چاہئے ہوگا ۔پتہ نہیں کیا ہوا ہے۔‘‘
گارڈ نے اس مرتبہ ہکلاہٹ پر قابو پاکر نام ذرا زور دے کر دوہرایا۔۔۔’’اکھیِل کے ساتھ والے آجائیں۔۔۔‘‘
’’نہیں نہیں ہمارا نمبر آگیا ہے۔‘‘بڑی عورت تیزی سے چلتی ہوئی بولی۔
اکھیِل پانڈے یا عقیل احمد۔۔۔؟دونوں خواتین تیز تیز قدموں سے گارڈ کی طرف بڑھ رہی تھیں۔
آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز دہلی کے بی آر امبیدکر کینسر انسٹی چیوٹ کے ڈے کئیر سیکشن میں ہمہ ہمی جاری تھی ۔