اسلام کی دعوت پر نبی اکرمﷺ کی عزیمت و استقامت کیسی تھی
محمد بن کعب القرظی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ:
جب رسول پاک ﷺ نے مکے کے کافروں کو اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کیا اور قریش کے اچھے اچھے لوگ مسلمان ہونے لگےتو کافر پریشان ہوگئے۔ایک دن ان کے کچھ سردار کعبے کے اندر بیٹھے تھے۔اس وقت رسول پاک ﷺ بھی وہاں ایک گوشے میں اکیلے تشریف رکھتے تھے۔قریش کے ایک سردار عتبہ بن ربیعہ نے دوسرے سرداروں سے کہاکہ اگر تم لوگ پسند کرو تو میں جا کر محمد ﷺ سے بات کروں اور اس کے سامنے چند تجویزیں رکھوں شاید وہ ان میں سے کسی کو مان لےاور ہمارے مذہب کے خلاف نہ بولا کرے۔قریش کے لوگ عتبہ کو ایک عقلمند آدمی سمجھتے تھےاور اس کی بہت عزت کرتے تھے۔
انہوں نے عتبہ سے کہاکہ ہمیں تم پر پورا بھروسا ہےتم ضرور جاکر محمدﷺ سے بات کرو۔
عتبہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ ﷺ کے پاس آبیٹھااور کہنے لگا:
’’بھتیجے !ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی تم خود جانتے ہو۔ویسے بھی تم ایک بہت ہی شریف خاندان کے آدمی ہو لیکن تم نے اپنی قوم کو کس مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ہمارے باپ دادا کے مذہب کو غلط ،اور ہمیں بے وقوف کہتے ہواور ہمارے بتوں کی برائی کرتے ہو۔اب ذرا میری سنو،میں چند چیزیں تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں ان پر غورکرو،شاید ان میں سے کوئی چیز تم قبول کرلو‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ آپ جو کچھ کہیں گے میں سنوں گا۔‘‘
عتبہ نے کہا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بھتیجے!یہ کام جو تم نے شروع کیا ہےاگر اس سے تمہارا مقصد دولت کمانا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا مال و دولت دے دیں گے تم ہم سب سے زیادہ دولت مند ہوجاؤ گے۔
اگر اس کام سے تم بڑا آدمی بننا چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا سردار بنانے پر تیار ہیں۔کسی بات کا فیصلہ تمہارے بغیر نہ کریں گے۔
اگر بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنانے پر تیار ہیں۔
اگر تم پر کوئی جن آتا ہے جسے تم دور نہیں کرسکتے اورتمہیں سوتے جاگتے میں واقعی کچھ نظر آنے لگا ہےتو ہم اچھے سے اچھے طبیب بلاکر تمہارا علاج کرانے پر تیار ہیں۔‘‘
رسول پاک ﷺ عتبہ کی باتیں سنتے رہے جب وہ خاموش ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ آپ کو جو کچھ کہناتھا کہہ چکےیا ابھی کچھ اور کہنا ہے۔‘‘
عتبہ نے کہا:’’مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا اب میری سنیے.......اس کے بعد آپ ﷺ نے سورۃحم السجدہ کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے سنتا رہا۔سجدہ کی آیت (نمبر ۲۸)پر پہنچ کر آپ ﷺ نے سجدہ کیا۔پھر سجدے سے اٹھ کر عتبہ سے فرمایا:
’’میرا جواب آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔‘‘
عتبہ وہاں سے اٹھ کر قریش کے سرداروں کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔انہوں نے پوچھا،کیا سن آئے؟
عتبہ نے کہا:
’’خدا کی قسم میں نے ایسا کلام اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا،یہ شعر ہے نہ جادواور نہ کسی نجومی کی بات۔اے قریش کے لوگو!میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑدو۔اگر عرب کے دوسرے لوگ اس پر غالب آگئےتو تم اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے بچ جاؤگے اور اگر وہ سارے عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی اور اس کی عزت تمہاری عزت ہی ہوگی۔‘‘
قریش کے سردار عتبہ کی باتیں سن کر بول اٹھے:
’’ آخر تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس ؓکا بیان ہے کہ ایک دفعہ سورج ڈوبنے کے بعد قریش کے بہت سے سردار کعبہ کی دیوار کے پاس جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو بلا کر کہا جائےکہ وہ جو چاہیں ہم سے لے لیں مگر ہمارے بتوں کی برائی کرنا چھوڑدیں۔چناچہ انہوں نے حضور ﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ ﷺکی قوم کے معزز لوگ جمع ہوئے ہیں تاکہ آپ ﷺ سے بات کریں۔چونکہ آپ ﷺبھی ان لوگوں کو سیدھے راستے پر لانا چاہتے تھےاس لئے آپ ﷺفوراَ تشریف لےگئے۔ان لوگوں نے آپ ﷺ سے کہا:
’’اے محمد ﷺ ہم نے تم کو اس لیے بلایا ہے کہ آج ہمارے تمہارے درمیان آخری فیصلہ ہوجائے۔خدا کی قسم تم نے اپنی قوم میں جو فتنہ ڈالا ہےعرب میں کسی شخص نے کبھی نہیں ڈالا۔تم نے ہم لوگوں کو بے وقوف کہا،ہمارے بتوں کی برائی کی،باپ دادا کے طریقے کو غلط کہاا ور قوم میں پھوٹ ڈال دی۔ اگر تم یہ سب کچھ مال کی خاطر کررہے ہوتو ہم سب مل کر اتنا مال تمہیں دےدیں گے کہ تم ہم سب سے زیادہ دولت مند ہوجاؤگے۔اگر تم اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں۔اگر تم بادشاہی چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں اور اگر گوئی جن تم پر آتا ہے توہم اپنے خرچ پر تمہارے علاج کا اہتمام کردیتے ہیں تاکہ یہ جن تمہارا پیچھا چھوڑ دے۔‘‘
جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’نہ مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ مجھے ان چیزوں کی ضرورت ہےجو تم مجھے دینا چاہتے ہو۔اللہ نے مجھے تمہاری طرف رسول بناکر بھیجا ہےاور مجھ پر ایک کتاب نازل کی ہےاور مجھےخوش خبری دینے والا بناکر بھیجا ہے کہ تمہارے لئے (ایمان لانے پر)اور (ایمان نہ لانے پر)ڈرانے والا بنوں۔چنانچہ میں نے اللہ کا پیغام تمہیں پہنچادیا اور تمہیں نصیحت کردی۔اب اگر تم وہ ہدایت قبول کرلو جو میں تمہارے پاس لایا ہوں تو تم دنیا اور آخرت میں خوش نصیب ہوگےاور اگر تمہیں اسے قبول کرنے سے انکار ہے تو میں اللہ کے حکم پر صبر کروں گا۔‘‘
قریش کے سرداروں نے آپ ﷺ کا جواب سنا تو وہ بہت ناراض ہوئے اور یہ کہہ کر چلے گئےکہ جو کام تم کررہے ہو ہم اسے یونہی نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ یا تم ہمیں ختم کردو یا ہم تمہیں ختم کردیں۔