پردہ دار ہستی تھی ذات کے سمندر میں

پردہ دار ہستی تھی ذات کے سمندر میں
حسن خوب کھل کھیلا اس صفت کے منظر میں


حسن عشق میں ہے یا عشق حسن میں مضمر
جوہر آئنے میں یا آئینہ ہے جوہر میں


عشق محشر آرا کی طور پر گری بجلی
حسن لن ترانی کہ رہ سکا نہ چادر میں


دیکھ اے تماشائی گل ہے رنگ و بو بالکل
امتیاز نا ممکن ہے عرض سے جوہر میں


گل میں اور بلبل میں کون جانے کیا گزری
چشم پوش مستی تھی اس برہنہ منظر میں


اپچی بناتے ہیں حسن کو سخن گو کیوں
کاٹ ان اداؤں کا کب ہے تیغ و خنجر میں


فرط سوز الفت میں دیکھ کر سکوں دل کا
بجلیاں مچلتی ہیں بادلوں کے محشر میں


چارہ گر کو حیرت ہے ارتقائے وحشت سے
پاؤں میں جو چکر تھا آ رہا ہے وہ سر میں


حسرت آرمان کی ہو کہنا سے گنجائش
ہے وہی مرے دل میں ہے وہی مرے سر میں


ہوں وہ رند یا صوفی مست اس کی دھن میں ہیں
جانے کتنے مے خانے بھر دیے ہیں کوثر میں


چرخ کیا اتر آیا آج فرش گیتی پر
رند بھی ہیں چکر میں مے کدہ بھی چکر میں


مے وہ ہوش پر افگن اور نظر وہ صہبا پاش
مست کیوں نہ ہو کیفیؔ ایک دو ہی ساغر میں