دسترس
ہماری دسترس میں کیا ہے کیا نہیں
زمیں نہیں
خلا نہیں
کہ آسماں نہیں
ہمیں تو صرف سوچنا یہ چاہیے
کہ مٹھیاں کھلی رہیں
ہتھیلیوں سے انگلیاں جڑی رہیں
زمیں سے پاؤں
پاؤں سے قدم
قدم سے راستوں کا سلسلہ بنا رہے
ہمیں تو صرف دیکھنا یہ چاہیے
کہ جس کو لوگ رد کریں
اور اپنی دید کی غلیظ چادروں سے ڈھانپ کر شکایتوں سے باندھ دیں
ہمارے جسم ماورا ہوں اس غلاف سے
ہماری دسترس میں کیا ہے کیا نہیں
بس یہی تو شرط ہے
ہمارے جسم ان گنت رہیں
مگر ہمارے سر جڑے رہیں
رگوں میں پیار کا لہو رواں رہے بدن بدن جواں رہے
زمیں رہے خلا رہے نہ آسماں رہے
مگر ہمیں یہی گماں رہے
ہماری دسترس میں کیا نہیں