دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی
دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی
حسن ازل کی جلوہ نمائی نہ ہو سکی
رنگ بہار دے نہ سکے خارزار کو
دست جنوں میں آبلہ سائی نہ ہو سکی
اے دل تجھے اجازت فریاد ہے مگر
رسوائی ہے اگر شنوائی نہ ہو سکی
مندر بھی صاف ہم نے کئے مسجدیں بھی پاک
مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی
فکر معاش و عشق بتاں یاد رفتگاں
ان مشکلوں سے عہد برآئی نہ ہو سکی
غافل نہ تجھ سے اے غم عقبیٰ تھے ہم مگر
دام غم جہاں سے رہائی نہ ہو سکی
منکر ہزار بار خدا سے ہوا بشر
اک بار بھی بشر سے خدائی نہ ہو سکی
خود زندگی برائی نہیں ہے تو اور کیا
محرومؔ جب کسی سے بھلائی نہ ہو سکی