دشت و صحرا پھر سے اپنائیں بھی کیا

دشت و صحرا پھر سے اپنائیں بھی کیا
وحشتوں کو اپنی سمجھائیں بھی کیا


درد ہی خوابوں کا خمیازہ سہی
دور دشت درد سے جائیں بھی کیا


اور کچھ لمحے ڈبو دیں چائے میں
یار اس گرمی میں گھر جائیں بھی کیا


یہ بہت کچھ تو ہے گردانا تمہیں
اور اس سے نیچے اب آئیں بھی کیا


فیصلہ کر دے گی اک موج ہوا
ڈہتی دیواروں کو ہم ڈھائیں بھی کیا


شاعری بازی گری تو ہے نہیں
شعبدے یاروں کو دکھلائیں بھی کیا