دشت تنہائی میں جلنے کی سزا جانے ہے
دشت تنہائی میں جلنے کی سزا جانے ہے
کیا ہے برتاؤ ہواؤں کا دیا جانے ہے
میں اسے دل کے دھڑکنے کا سبب کہتا ہوں
اور اک وہ کہ مجھے خود سے جدا جانے ہے
بے ضمیروں کا بھی جینا کوئی جینا ہے کہ بس
لذت زیست تو پابند انا جانے ہے
میں اک آسودۂ غم ہوں سر راہ ہستی
جز مرے کیف الم کون بھلا جانے ہے
تم جو اس راہ سے گزرو گے تو مل جاؤں گا
میری منزل مرا نقش کف پا جانے ہے
اہل دانش کو کہاں خندہ لبی کی مہلت
صرف دیوانہ ہی یہ طرز و ادا جانے ہے
مجھ پہ کیا گزری ہے آخر شب ہجراں میں خطیبؔ
میرا دل جانے ہے یا میرا خدا جانے ہے