دشت آزار میں خاروں پہ چلایا ہوا میں
دشت آزار میں خاروں پہ چلایا ہوا میں
سنگ باری کے ترشح میں نہایا ہوا میں
چھوڑ آیا ہوں صف جاں پہ نشاں سجدوں کے
نوک نیزہ پہ دم عصر اٹھایا ہوا میں
تیغ قاتل پہ چمکتی ہے مرے خون کی ضو
شہر بیداد میں خط لکھ کے بلایا ہوا میں
خوشبوئے شوق شہادت سے معطر ہو کر
گلشن محضر میقات پہ آیا ہوا میں
صبح آلام کے سورج کو صدا دیتا ہوا
وسعت شام غریباں میں سمایا ہوا میں