دریافت اور بازیافت، ترجمے کا معاملہ

ترجمے کے بارے میں سوالات اور مسائل کا گہرا تعلق زبان کی اصل اور نوعیت کے بارے میں سوالات سے ہے۔ اگر کوئی ایسی واحد قدیمی زبان نہیں تھی جسے ہم ام الالسنہ کہہ سکیں اور اگر ہر زبان اپنی جگہ بے عدیل و بےنظیر ہے، تب تو ترجمہ ناممکن ہے۔ چوں کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی نہ کسی طرح کا ترجمہ ممکن ہے، اس لیے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کبھی کوئی قدیمی، آفاقی ام السنہ تھی جس نے اپنے نشان بعد کی تمام زبانوں میں چھوڑے ہیں اور اسی باعث یہ ممکن ہو سکا کہ انسان اپنے تجربے کو دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں اور اپنے خیالات کی ترسیل دوسروں تک کر سکتے ہیں۔


نوم چومسکی (Noam Chomsky) اسی نظریے کا موید معلوم ہوتا ہے۔ شاید اس لیے کہ اس نظریے کی رُو سے کسی آفاقی تبدلاتی (Transformational) گرامر کے وجود کا بھی امکان پیدا ہوتا ہے۔ چومسکی کہتا ہے کہ ’’انسانی دماغوں میں ایک نظامِ قواعد مشترک ہے اور یہی نظامِ قواعد ہمارے لیے یہ بات ممکن بناتا ہے کہ ہم لامتناہی پھیلاؤ کے اندر واقع ہونے والے فقروں کو اپنے اندر وصول کرنے (Process) اور ان کی تعبیر کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔‘‘


چومسکی کے بہت سے تصورات کی مخالفت گزشتہ چند برسوں میں ہوئی ہے لیکن اس کے اس سوال کو کوئی اطمینان بخش خواب نہیں مل سکا ہے کہ انسان بولتا کیوں ہے؟ کیا انسان اس لیے بولتا ہے کہ اس کے حلق اور گلے میں خاص طرح کے عضلات اور ہڈیاں ہیں جو آواز نکالنے میں معاون ہیں یا انسان کے حلق اور گلے میں خاص طرح کے عضلات اور ہڈیاں اس لیے ہیں کہ وہ بول سکتا ہے؟ یہ معاملہ صرف اس بات کا نہیں ہے کہ فوقیت کس کو حاصل ہے؟ بدنیات (Anatomy) کو یا حیاتیات (Biology) کو؟ کیوں کہ اگر انسان اس لیے بولتا ہے کہ اس کا گلا ایک خاص طرح کا ہے تو پھر زبان ایک محض بدنیاتی معاملہ ہے اور یہ محض انسانوں کی کوئی بلاشرکت غیرے جاگیر نہیں۔


لیکن اگر انساں نے لاکھوں برس میں ایسا گلا ارتقائی طور پر حاصل کیا جس کے ذریعے آوازیں نکل سکیں، کیوں کہ انسان بولنا چاہتا تھا، تب تو زبان بدنیاتی نہیں بلکہ داخلی اور حیاتیاتی معاملہ ہے اور اگر ایسا ہے تو کسی ایسی زبان کا وجود تصور کرنا مشکل نہیں جسے کسی گم نام، قدیم زمانے میں تمام انسان بولتے تھے۔ اس نظریے کی رُو سے انسان کے لیے زبان فطری اور داخلی قوت ہے اور اس کی وہی حیثیت ہے جو موسیقی، ڈرائنگ اور منطق کی ہے۔


لیکن مشکل یہ ہے کہ موسیقی، ڈرائنگ اور منطق کو سمجھنے کے لیے ان کا ترجمہ ضروری نہیں لیکن زبان تو علامیوں (Codes) کے ذریعے اپنا عمل کرتی ہے اور ان علامیوں Codes کو کھولنا، Decode کرنا ہر سطح پر ضروری ہوتا ہے۔ روما یا کسبن کہتا ہے کہ علامیہ کھولنے (to decode) کا یہ عمل اس وقت بھی ہوتا ہے جب علامیے کا مخاطب ایسا شخص ہو جو اس زبان کو نہ صرف جانتا ہو، بلکہ وہ زبان اس کی مادری زبان بھی ہو۔ کیوں کہ علامیے کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے کھولا جائے (یعنی decode کیا جائے۔) اگر ایسا ہے تب تو ہم تمام زندگی ترجمہ ہی کرتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ اپنی زبان میں گفتگو کرتے وقت بھی ہم ترجمہ ہی کر رہے ہوتے ہیں۔


لہٰذا ترجمہ ایسا عمل ہے جو ضروری بھی ہے اور پسندیدہ بھی۔ جب دو اشخاص کے درمیان علامیے مشترک ہوں تو مشکل نہیں ہوتی بلکہ یوں کہیے کہ ہوتی ہے مگر بہت کم، اتنی نہیں ہوتی کہ بات سمجھ میں نہ آئے۔ اصل مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب گفتگو کرنے والوں کے درمیان علامیہ مشترک نہیں ہوتا، مثلاً جب ہمارا سابقہ ایسی زبان سے پڑتا ہے جس سے ہم نابلد ہوں۔ ایسی صورت میں اجنبی زبان کے علامیوں کو سیکھنا اور ان اجنبی علامیوں کو اپنے مانوس علامیوں میں منتقل کرنا پڑ جاتا ہے۔


علامیوں کو اس طرح منتقل کرنے میں ان کے معنی کا کتنا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ مثالی صورتِ حال کی رُو سے تو یہ ہونا چاہیے کہ کچھ بھی ضائع نہ ہو، خاص کر اگر تمام زبانوں کی ماں ایک ہی زبان ہے۔ لیکن حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ بہت کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔ کیفیت کے اعتبار سے بھی اور کمیت کے اعتبار سے بھی، بلکہ یوں کہیے کہ کیفیت کے اعتبار سے نقصان اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ نقصان کی نوعیت محض کمیت سے متعلق ہوتی ہے۔ اس معاملے پر آئندہ بحث ہوگی۔ فی الحال تو زبان کی نوعیت کے بارے میں ایک دو باتیں اور ہو جائیں۔


چومسکی کے مخالف نظریات لسان میں ایک نظریہ یوں ہے کہ زبان در اصل تہذیب سے مختص ہے۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ دیں گے کہ تہذیب ہی زبان سے مختص ہے، یعنی اگر زبان مجموعہ ہے حیات و کائنات کے بارے میں بیانات کا، تو تہذیب ان بیانات کی عملی صورت یا ان کا عملی پہلو ہے۔ اس طرح معلوم ہوا کہ تہذیب کچھ نہیں ہے، وہ محض زبان کی اولاد ہے۔ جارج اسٹائنر (George Stainer) کا نظریہ تقریباً یہی ہے جب وہ کہتا ہے bread یعنی ’’روٹی‘‘ کے لیے انگریزی لفظ کو pain (یعنی ’’روٹی‘‘ کے لیے فرانسیسی لفظ) کا ترجمہ نہیں کہہ سکتے۔ فرانسیسی کانوں کو لفظ pain میں احتیاج اور پُرجوش مطالبے کی وہ گونج سنائی دیتی ہے جو انگریزی لفظ میں ہے ہی نہیں۔


لہٰذا اس نظریے کی رُو سے یہ ہم نہیں ہیں جو کوئی نظریۂ حیات و زندگی وضع کرتے ہیں اور پھر اسے زبان کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں بلکہ یہ زبان ہے جو ہمارے نظریۂ حیات و زندگی کو وضع کرتی ہے۔ یہاں ہم ارسطو کے اس خیال کے بہت قریب پہنچ جاتے ہیں کہ کسی چیز کو نام دینا اور اس کو بیان کرنا ہی اس شے کا علم حاصل کرنا ہے۔ یعنی جب آپ نے کسی شے کو نام دے دیا اور اس کو بیان کر دیا تو اس کا علم آپ کو حاصل ہو گیا۔ یہ تصور تمام قدیم فلسفوں اور قبلِ قدیم اعتقادات میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ پرانے تصورات کی رُو سے لفظ اور شے ایک ہی تھے۔


رچڑڈ رورٹی (Richard Rorty) نے نطشمے اور نلسن گڈمین کے خیالات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے حالیہ خیال انگیز مضامین کے سلسلے میں اس بات سے بحث کی ہے کی خودی (Selfhood) اور لسان دونوں ہی وجوب سے معرا ہیں۔ رورٹی کا کہنا ہے کہ حقائق (یا حقیقت) چوں کہ زبان کے ذریعے ظاہر کیے جاتے ہیں اور زبان انسان کی بنائی ہوئی ہے، اس لیے حقائق (یا حقیقت) بھی انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ تصور ترجمے کے لیے پیغامِ موت کا حکم رکھتا ہے کیوں کہ اگر تمام سچائیاں انسان کی بنائی ہوئی اور وجوب سے عاری ہیں تو ایسی کوئی آفاقی حقیقت نہیں جسے ہم جان سکیں اور جس کا ترجمہ کر سکیں۔ تمام تراجم کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ وہ محض ہماری سچائیوں کی تخلیقِ نو ہیں اور ان میں کوئی بھی اصلیت نہیں۔


لیکن اگر ہم رورٹی کے اس تصور کو مسترد بھی کر دیں کہ زبان وجوب سے عاری ہے تو بھی ہم ان مسائل کو حل کرنے سے بہت دور رہیں گے جو زبان کے تفاعل کے بارے میں آج کے مقبول نظریات کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں۔ سی ایس پیرس (Peirce) اور فرڈنیاں سوسیور (Fredinand Sanssure) کی تحریرات اس صدی کی شروع میں منظرِ عام پر آئیں اور آج تو سوسیور کی لسانیات اس زمانے کا برحق نظریۂ لسان بن گئی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب The World. The Text and The Critic میں کہا ہے کہ لسان کے عدم وجوب کا نظریہ سب سے پہلے اسپینی عرب فلسفی ابن خرم نے پیش کیا۔ ان تمام خیالات کے نتیجے میں یہ مشکل پیدا ہوتی ہے کہ اگر زبان مطلق حقائق کا گہوارہ نہیں ہے، تب ہم دنیا کے بارے میں علم صرف منفی اصطلاحات کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں اور یہ منفی اصطلاحات بھی انسان کی بنائی ہوئی ہیں۔


ترجمے سے ان معاملات کا تعلق ظاہر ہے۔ اگر معنی الفاظ کے اندر اصلی وجود نہیں رکھتے بلکہ محض اَلل ٹپ ہیں تو کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی فن پارے میں مرادِ شاعر کیا تھی؟ کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ شاعر کے معاصرین نے اس کے کلام سے کیا مراد لی تھی؟ اور اگر ہم شاعری کی مراد کو سمجھنے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ اس کا مفہوم ہمارے لیے بھی معنی خیز ہو؟ اگر نہیں تو کیا جب ہم کسی فن پارے کا ترجمہ اپنی فہم کے اعتبار سے کرتے ہیں تو کیا ہم اس فن پارے پر اپنے معنی مسلط نہیں کر رہے ہیں؟ شاید اسی لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ترجمہ محض ترجمہ نہیں، بلکہ ترجمہ شدہ فن پارے کی عمدہ تنقید بھی ہوتا ہے اور فرض کیجیے کہ ہم مراد شاعر کو سمجھ گئے اور مرادِ شاعر ہمارے لیے با معنی بھی ہے تو اب ہم کیا کریں؟


مثال کے طور پر پرانے یونانیوں کا خیال تھا کہ نظریا بصارت روشنی کی باریک لکیریں ہیں جو آنکھ سے نکل کر اشیا پر پڑتی ہیں اور اس طرح اشیا ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔ یونانیوں کے اس نظریے کی بنا پر فارسی، عربی، ترکی، اردو وغیرہ میں ’’تارِ نگاہ‘‘ قسم کے صدہا استعارے وجود میں آئے۔ اس تصور کی وجہ سے شعرا کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ بصارت کو کسی طبیعی قوت کی طرح کا فرض کر سکیں۔ پھر معشوق کی نگاہ کے لیے خنجر، تلوار، تیر وغیرہ استعارے ممکن ہو سکے۔


مصری سائنس داں ابن الہیشم نے دسویں صدی میں دریافت کیا کہ روشنی آنکھ سے نکل کر اشیا پر نہیں پڑتی بلکہ وہ روشنی جو اشیا پر باہر سے پڑتی ہے، اس کے ذریعے آنکھ کے پردے پر تصویریں بنتی ہیں۔ ابن الہیشم کے تصورات کی وجہ سے اس طرح کے مضامین وجود میں آئے کہ دیکھی ہوئی شے کا نقش (یا عکس) آنکھ پر ہمیشہ کے لیے مرتسم ہو جاتا ہے۔ اب اگر آپ انگریزی میں ترجمہ کر رہے ہیں تو اس طرح کے استعاروں کو کس طرح ادا کریں گے کہ نگاہیں تیر ہیں یا یہ کہ آنکھ کی سطح پر کسی شے کا نقش ہمیشہ کے لیے کالحجر ہو گیا ہے؟ آپ جو بھی کریں، لیکن اصل بیان کی کچھ نہ کچھ سچائی ترجمے میں ضرور ضائع ہو جائےگی۔


کہا گیا ہے کہ چوں کہ تمام زبان ہی الل ٹپ ہے، اس لیے تمام زبان استعارہ ہے۔ لہٰذا مترجم کو چاہیے کہ لفظ بہ لفظ ترجمے کے بجائے استعارہ بہ استعارہ ترجمہ کرے۔ لیکن یہ استدلال دوری (circular) ہے، کیوں کہ اگر تمام زبان استعارہ ہے تو الفاظ سے الگ استعارہ کوئی چیز نہیں۔ لیکن چلیے تھوڑی دیر کے لیے اس استدلال کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ مترجم کو چاہیے کہ استعارہ بہ استعارہ ترجمہ کرے۔ استعارے کی بنیاد یہ ہے کہ مماثلت کی بنا پر معنی میں توسیع ہو اور مماثلت کا تصور پیدا ہوتا ہے ہمارے تصورِ حیات و زندگی سے اور ہمارا تصورِ حیات و زندگی اگر زبان کا پروردہ نہیں بھی ہے تو زبان سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔


سی ایس پیرس (C.S. Peirce) نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’لفظ کتا کسی کو نہیں کاٹتا۔‘‘ لہٰذا کتے اور خون خواری میں مماثلت اس وجہ سے نہیں ہے کہ لفظ ’’کتا‘‘ میں کوئی خاص ’’کتاپن‘‘ ہے۔ یہ مماثلت اس وجہ سے ہے کہ ہمارے نظریۂ حیات وزندگی کی رُو سے کتے خوں خوار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی تہذیب ایسی ہو جس میں کتے کو معصوم اور مقدس مانا جاتا ہو تو کتے اور خوں خواری کی مماثلت غائب ہو جاتی ہے۔ فرض کیجیے ایسی کسی تہذیب میں کوئی مترجم آڈن (Auden) کی ایک نظم کا ترجمہ کر رہا ہے جس میں دو سطریں ہیں،


In the nightmare of the dark
all the dogs of Europe bark


تو ایسی تہذیب والے کے لیے یہ مصرعے مفہوم سے عاری ہوں گے۔ لہٰذا اس کے ترجمے میں dogs کی جگہ کوئی اور جانور رکھنا پڑےگا، مثلاً بھیڑیا، لکڑبگھا لیکن فرض کیجیے کہ ہمارے مترجم کی تہذیب میں بھیڑیے اور لکڑبگھے کا وجود نہیں۔ وہ سوچ سمجھ کر ان کا نزدیکی درندہ ’’شیر‘‘ اپنے ترجمے میں لکھ دیتا ہے۔ بھیڑیے یا لکڑبگھے کا لفظ رکھنے کے بعد اسے لفظ bark کے لیے بھی کوئی دوسرا لفظ رکھنا پڑتا۔ لیکن لفظ شیر کا انتخاب کر کے وہ دُہری مشکل میں پڑےگا۔ اسے لفظ bark کی جگہ کوئی اور لفظ رکھنا ہی ہوگا، لیکن ’’شیر‘‘ کہہ کر وہ مرادِ شاعر سے بہت دور بھی جا پڑےگا، کیوں کہ آڈن انگریزی شاعر ہے اور یورپ میں شیر ہوتے ہی نہیں۔ لہٰذا ’’یورپ کے شیر‘‘ اتنا ہی بے معنی ہے جتنا ’’ہندوستانی زیبرا‘‘ یا ’’خطۂ شمالی کا مور۔‘‘ پھر مصیبت یہ ہے کہ بھونکتے ہوئے کتوں کے پیکر میں بہت سے انسانی، گھریلو انسلاکات بھی ہیں۔ جہاں آپ نے لفظ bark کو ترک کیا، وہ انسلاکات بھی ترک ہو جائیں گے اور ترجمہ ناقص رہ جائےگا۔


لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ دونوں طرح مترجم کی شکست ہی بدی ہے۔ اگر لفظ بہ لفظ ترجمہ سہل ہو سکتا ہے تو غیرلفظی یاا ستعاراتی یا تخلیقی ترجمہ بھی اس خطرے میں ہے۔


بہت سے مترجم کہتے ہیں کہ اگر ہم ’’اصل کی روح‘‘ کو ادا کر دیں تو ہم نے اپنا کام کر لیا، کیوں کہ الفاظ تو بہر حال ناقابل ترجمہ ہیں۔ یا اگر ان کا ترجمہ ہو بھی جائے تو وہ اصل کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ یہاں میں اس بات سے بحث نہ کروں گا کہ کیا مترجم بلکہ کسی بھی شخص میں یہ صلاحیت ہوتی بھی ہے کہ وہ اصل کی روح کے بارے میں صحیح صحیح بیان کر سکے کہ وہ کیا ہے؟ لیکن میں یہ سوال ضرور پوچھوں گا کہ کیا اصل الفاظ کے علاوہ اور بھی کوئی الفاظ ہو سکتے ہیں جو اصل کی روح کو بیان کر سکیں، مثلاً نگاہوں کے تیر، اس فقرے کی روح کو بیان کرنے کے لیے کون سے الفاظ یا کون سی عبارت کافی ہوگی۔ اقبال کا مصرع ہے،


اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں


یہاں ’’دل نشیں‘‘ کے لغوی معنی ہیں دل میں بیٹھا ہوا، دل میں گڑا ہوا، دل میں بیٹھنے یا گڑنے کی صلاحیت رکھنے والا۔ اس کے مجازی معنی ہیں دل کو کھینچنے والا، دل کو متاثر کرنے والا۔ اب ’’نگاہوں کے تیر‘‘ کی مناسبت سے ’’دل نشیں‘‘ کے لغوی معنی ترجمے میں زیادہ بہتر معلوم ہوں گے اور اس فقرے کا لغوی ترجمہ ’’اصل کی روح‘‘ سے نزدیک تر معلوم ہوگا۔ پھر اس قاعدے کا کیا بنا کہ مترجم کو چاہیے کہ وہ لغوی معنی کو نظرانداز کر کے ’’اصل کی روح‘‘ کو اپنی گرفت میں لائے؟ اکثر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لغوی معنی ہی میں اصل کی روح پوشیدہ ہے۔ وکٹر کیئرنن (Victor Kiernan) نے اقبال کے محولہ بالا مصرعے کا ترجمہ یوں کیا ہے، Those glances whose barbs sticks in the heart where they fall


ظاہر ہے کہ اس ترجمے میں ’’دل نشیں‘‘ کے دونوں معنی لغوی اور استعاراتی مفقود ہیں۔ پھر ترجمے کے آخری تین لفظ where they fall نہ صرف بالکل نامناسب ہیں، بلکہ تکرارِ ناروا کی بھی مثال ہیں۔ مترجم نے یہ فقرہ وزن کو پورا کرنے کے لیے اور شاید انگریزی میں barb of glances کی تقریباً بے معنویت کو نرم کرنے کے لیے مصرعے میں داخل کیا ہے۔ پھر یہ بھی غور کیجیے کہ اردو کا مصرع اپنی جگہ پر مکمل ہے۔ مترجم نے اس کی ہئیت کو بدل کر مصرعے میں تکمیلیت کے احساس کو بھی نقصان پہنچا دیا ہے۔


مزید مسئلہ یہ ہے کہ مترجم کی ذاتی ترجیحات، اصل زبان اور ترجمے والی زبان کے لیے اس کا جبلی اور باطنی احساس اور جس مصنف کا ترجمہ وہ کر رہا ہے، اس کے پورے کلام کے بارے میں مترجم کا تاثر یہ سب باتیں مختلف طرح سے ترجمے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اسٹینلی برن شا (Stanley Burnshaw) نے اپنی کتاب (Varieties of Literary Experience) کے دیباچے میں اس کی بڑی موَثر مثال فراہم کی ہے۔ ٹومس مان (Thomas Mann) کے طویل افسانے‘‘ ٹونیو کروگر‘‘ (TonioKrogar) کا محض ایک سادہ جملہ وہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ اصل جرمن زبان سے اس کو حسبِ ذیل طریقوں سے انگریزی میں منتقل کیا گیا ہے۔


And Tonio Kroger Journeyed northward، بی کیو مارگن
And Tonio Kroger travelled north، کنتھ برک
And Tonio Kroger travelled north، ایچ ٹی لو پورٹر
And Tonio Kroger went north، خود مان کا منظور شدہ ترجمہ


بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آخری شکل، جسے خود اصل مصنف کی منظوری حاصل ہے، سب سے زیادہ کمزور ہے تو کیا بطور مترجم ہم یہ حق رکھتے ہیں کہ مصنف کی ترجیح اور منظوری کو نظرانداز کر دیں اور اس طرح ترجمہ کریں جس طرح ہم مناسب سمجھتے ہیں؟


میں نے اوپر کہا ہے کہ زبان میں کوئی چیز در حقیقت کمیت کی حامل نہیں ہوتی، بلکہ ہر چیز کیفیت کا حکم رکھتی ہے۔ ترجمے میں اصل کا جو کچھ چھوٹ جاتا ہے وہ بھی اتنی ہی کیفیت کا حامل ہوتا ہے جتنا وہ حصہ جو اصل سے ترجمے میں پہنچتا ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہم روبرٹ فروسٹ کی طرح یہ کہیں کہ شاعری وہ ہے جو ترجمے میں حذف ہو جاتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ترجمہ در اصل قربانیوں اور مفاہمتوں کا سلسلہ ہوتا ہے۔ جب ہم شاعری کا ترجمہ کرتے ہیں تو وزن و بحر، شعر کی ظاہری ہئیت، قافیہ، مختلف طرح کے بصری علامیے، روز مرہ اور محاورہ کے وہ حصے جو اصل زبان کے باہر بے معنی ہو جاتے ہیں، الفاظ کی شکل وبافت، ہمیں ان سب کو سب سے پہلے قربان کر دینا پڑتا ہے۔


ان میں سے کچھ قربانیاں لائقِ برداشت تو ہوتی ہیں لیکن چوں کہ مندرجہ بالا تمام کی تمام چیزیں شعر کے معنی کا حصہ ہوتی ہیں، اس لیے ہم جس حد تک انھیں ترک کرنے پر مجبور ہوں گے، اس حد تک ہم اس شعر کے اندر موجود شاعری کو بھی ترک کرنے پر مجبور ہوں گے۔ علیٰ ہذالقیاس، گرامر کا بہت سارا حصہ بھی ترجمے میں ضائع ہو جاتا ہے اور یہ نقصان بھی کیفیت کا حامل ہے، محض کمیت کا نہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے اردو ترجمۂ قرآن کے دیباچے میں لکھا ہے کہ (اور یہ بات بہت اہم ہے، اس کو بیان کرنے میں اوّلیت کا شرف بھی نذیر احمد کا ہے۔) کہ عربی گرامرکے بہت سے قاعدے اور رسوم اردو میں ناپید ہیں۔ نذیر احمد نے بیان کیا ہے کہ گرامر کے یہ قاعدے اور رسوم، متنِ قرآن کے کردار کو قائم کرنے میں بہت اہم ہیں، لیکن افسوس کہ اردو کا ترجمہ نگار اس نقصان کو کسی طرح پورا نہیں کر سکتا۔


یا جنس کی معمولی سی مثال لیجیے۔ انگریزی زبان میں جنس gender کا محدود تصور ہے، فارسی میں بالکل نہیں۔ اردو، ہندی، پنجابی، عربی، فرانسیسی میں جنس ہے۔ کسی زبان میں اس کا عمل دخل بہت زیادہ ہے، کسی میں نسبتاً کم۔ اب اگر کسی منظر کو انگریزی یا فارسی میں بیان کیا جائے تو یہ ممکن ہے کہ suspense اسرار یا عدم قطعیت پیدا کرنے کی غرض سے کرداروں کی جنس کو واضح نہ کیا جائے۔ اب اگر ایسے فن پارے کو ایسی زبان میں ترجمہ کیا جائے جس میں جنس کو واضح کیے بغیر چارہ نہ ہو، تو ظاہر ہے کہ بیانیہ کی وہ ترکیب جو اصل مصنف نے استعمال کی ہے، بروئے کارنہ آ سکےگی۔


مثلاً انگریزی کا جملہ ہے Sparky came اس سے بالکل پتا نہیں لگتا کہ Sparky عورت ہے یا مرد۔ لیکن اردو میں ہمیں کہنا ہوگا ’’اسپارکی آیا۔‘‘ یا ’’اسپارکی آئی۔‘‘ اور اس طرح اسپارکی فوراً مرد یا عورت ثابت ہو جاتی ہے۔ لہٰذا وہ suspense یا اسرار قائم نہیں ہو سکتا جو اصل مصنف کا مقصود تھا۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ جنس کا التزام رکھنے والی زبان کے مصنف کو بہت سے ایسے جدلیاتی رسومیات اور جذبات انگیز طریقے بہم ہوتے ہیں جو اس زبان میں نہیں ہوتے جس میں جنس کا التزام نہیں ہوتا، مثلاً اردو میں ہم کہتے ہیں، میرا محبوب آیا/ میری محبوبہ آئی۔ انگریزی میں دونوں صورتوں کے لیے ایک ہی عبارت ہوگی۔ My beloved came اور جملے کا انگریزی میں ترجمہ بہر حال ناقص ہوگا۔ پھر یوں بھی ہے کہ اردو میں مذکر لکھ کر مونث مراد لیتے ہیں (یعنی معشوق کو اکثر مذکر لکھتے ہیں) اور اس طرح کثیرالمعنویت حاصل ہوتی ہے۔ جس زبان میں مذکر مونث نہ ہو، اس میں اس طرح کثیر المعنویت ممکن نہیں۔


ان سب نقصانات کے باوجود ترجمہ تو بہر حال ہونا ہی چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ کبھی کبھی ترجمے کو ان سے بھی زیادہ نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں اور کبھی کبھی شکست تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ بیکٹ Beckate کے ڈرامے Waiting for Godot کا ترجمہ کرتے وقت کرشن چندر نے عجب غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا کہ پوتسو Pozzo کے بے معنی مکالمات کا ترجمہ انھوں نے لغوی طور پر کرنے کے بجائے اپنے طور پر بے معنی عبارت لکھ دی اور اصل کا تاثر بھی قائم رکھا۔ یعنی انھوں نے لفظ اور فقرے کی جگہ تاثر اور تاثیر کا لحاظ رکھا۔ لیکن ایسا ہر بار ممکن نہیں ہو سکتا مثلاً شیکسپیئر کے ڈرامے King Lear میں بادشاہ لیئر کی مجذوبانہ بڑیا اسی ڈرامے میں مسخرے کی بے معنی گفتگو کا ترجمہ کرنے کے لیے کرشن چندر والی ترکیب کارگر نہ ہو گی کیوں کہ ان عبارتوں میں رعایتِ لفظی، ابہام اور تلمیح کی کثرت ہے۔ بادشاہ کی مخبوط الحواسی اور مسخرے کے اہمال میں شیکسپیئر نے بہت ساری باریکیاں پوشیدہ کر رکھی ہیں۔


کامیاب ترجمہ وہ ہے جو اصل کے مطابق ہو (یا بڑی حد تک اصل کے مطابق ہو) اور خلاقانہ شان رکھتا ہو۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں کا یکجا ہونا تقریباً نا ممکن ہے۔ لیکن ترجمے میں کامیابی کا تصور بہت وسیع ہے اور اگرچہ کوئی بھی شخص اس کامیابی کی پوری وسعت کا احاطہ نہیں کر سکتا، اچھے اور خوش نصیب مترجم اس کے بڑے حصے کا احاطہ ضرور کر سکتے ہیں۔ کامیاب ترجمہ اس معنی میں خلاقانہ نہیں ہوتا کہ مترجم اصل کی جگہ اس کے برابر کوئی دوسری نظم یا ناول لکھ دیتا ہے۔ مترجم اصل فن پارے کو اپنی زبان میں دوبارہ خلق کرتا ہے اور اس طرح نہیں کہ پہلے وہ اصل فن پارے کو مار ڈالے اور پھر اسی کو اپنی زبان میں دوبارہ زندہ کرے اور نہ اسے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ خود اصل فن پارے کا مصنف ہے اور اب اس فن پارے کو وہ ترجمے والی زبان میں لکھ رہا ہے۔


سوفکلیز (Sophocles) کا ترجمہ کرتے وقت ازرا پاؤنڈ نے یونانی دیہاتی لوگوں کو لندن کی کوکنی Cockney زبان بولتے ہوئے دکھایا ہے۔ اس سے انگریزیت تو ترجمے میں آ گئی، لیکن یونانیت غائب ہو گئی۔ یہ بات صحیح ہے کہ بقول ٹی ایس اِلیٹ، یہ بڑی غلطی ہوگی کہ ہم ازرا پاؤنڈ کے تراجم کو اس کے طبع زاد کلام سے الگ کر کے دیکھیں۔ لیکن اِلیٹ کے اس جملے کا طلاق ازرا پاؤنڈ کے ان ترجموں پر زیادہ ہوتا ہے جو اس نے غیرزبانوں کی شاعری اور خاص کر چینی اور لاطینی شاعری سے کیے ہیں۔ ولیم ایروسمتھ (William Arrowsmith) نے یونانی طربیہ نگار ارسٹوفینیز (Aristophanes) کے جو تراجم کیے ہیں، ان میں یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے۔


ایرو سمتھ کے تراجم میں یونانی عوام اور دیہاتی لوگ ایسی زبان تو بولتے ہیں جو طربیہ مضمون اور لہجے کے لیے مناسب ہے لیکن وہ ’’عوامی‘‘ یا ’’دیہاتی‘‘ زبان نہیں بولتے۔ اس طرح ایروسمتھ اصل ڈرامے اور ہمارے درمیان ضروری فاصلہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ خلاقانہ ترجمہ وہ ہے جو اصل فن پارے کی شخصیت کو منہدم نہیں کرتا اور ترجمے والی زبان میں پہلے سے موجود ادب سے مختلف معلوم ہوتا ہے لیکن مختلف معلوم ہوتے ہوئے بھی وہ ترجمے والی زبان بولنے والوں کے لیے قابلِ قبول اور قابل فہم ہوتا ہے۔


لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ ترجمہ کیے ہوئے فن پارے کو ترجمہ نہیں معلوم ہونا چاہیے۔ محمد حسن عسکری، جنھوں نے خود فرانسیسی اور انگریزی سے بہت عمدہ تراجم کیے ہیں، کہا کرتے تھے کہ ترجمے میں ’’ترجمہ پن‘‘ کا ہونا کوئی عیب نہیں، حقیقت یہ ہے کہ ترجمے کے ذریعے ترجمے والی زبان کے نئے امکانات منکشف ہوتے ہیں۔ ترجمہ دراصل مترجم کو دو طرفہ جنگ میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ جنگ اس زبان سے بھی ہوتی ہے جس سے ترجمہ کیا جا رہا ہے اور زبان سے بھی جس میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ جورج اسٹائینر Gerog Steiner کہتا ہے کہ ترجمہ ایک زندہ چنگاری ہے، یہ ماضی اور حال اور تہذیبوں کے درمیان تو انائی کا بہاؤ ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ اپنے وجود کی جگہ دوسرا وجود اختیار کرنے کا قریب ترین امکان اسی میں ہے کہ ’’جہاں تک ہم سے ہو سکے، خود کو کسی دوسری زبان میں غرق کر دیں۔‘‘ لیکن چوں کہ ترجمہ ہمیں خود اپنی زبان کے بھی حدود اور امکانات سے روشناس کراتا ہے، اس طرح وہ بذاتِ خود تخلیق بن جاتا ہے۔


کہا گیا ہے کہ ناول کے ترجمے میں وہ مسائل نہیں پیدا ہوتے جو شاعری کے ترجمے میں ہوتے ہیں۔ اسٹینلی برن شا کا کہنا ہے کہ ناول کا بڑا حصہ اور یقیناً اس کا اہم ترین حصہ ترجمے میں باقی رہتا ہے۔ برن شا کہتا ہے کہ ’’شاعری یقیناً وہ واحد عنصر نہیں ہے جو کسی بدیسی ناول کے انگریزی ترجمے کے مجموعی گہرے تاثر کو پیدا کرتی ہے۔‘‘ اس کا خیال ہے کہ ناول میں بہت سے ایسے اجزا ہوتے ہیں جو اصل سے الگ کیے جا سکتے ہیں اور وہ ترجمے میں بخوبی آ سکتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ فکشن کا ترجمہ شاعری کے ترجمے کے مقابلے میں آسان لگتا ہے۔ لیکن شاعری کی نوعیت ہی ایسی ہے کی مترجم کو اس سے زیادہ کامیابی کی امید نہیں ہو سکتی جتنی اس فوٹو گرافر کو ہو سکتی ہے جو کسی رنگین تصویر کی یک رنگی فوٹو تیار کرتا ہے۔


فکشن میں بہت سی وہی تشکیلات ہوتی ہیں جو شاعری اور ڈرامے میں ہوتی ہیں۔ لیکن کسی اچھے اسٹیج ڈرامے کا خراب ترجمہ بھی اسٹیج پر کامیاب ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ڈرامے کی بہت سی خصوصیات موسیقی کی طرح، ترجمے کی محتاج نہیں ہوتیں۔ مگر فکشن میں لسانی تشکلیلات زیادہ ہوتی ہیں، خالص ڈراما کم (اگرچہ ہنر جیمس کی تمنا یہی تھی وہ ایسے ناول لکھے جس میں ڈراما کا وصف ہو۔) روسی اور فرانسیسی ناولوں کے جو تراجم اردو میں ہوئے ہیں (چاہے براہِ راست، چاہے براہِ انگریزی) ان میں سے اکثر میں یہی خرابی ہے کہ مترجم اصل زبان کو اپنے وجود کا حصہ بنانے اور ’’اندر سے کام کرنے‘‘ سے قاصر رہا ہے۔ ان تراجم میں اصل زبان زندہ تحرک انگیزی کے بجائے نمونے کا کام دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہاں اصل زبان، ترجمے والی زبان کی تشکیل کے بجائے، اس سے ٹکرانے کا کام کرتی ہے اور اس طرح دونوں کا زیاں ہو جاتا ہے۔ خلاقانہ ترجمے میں اصل زبان، ترجمے والی زبان کو زندگی بخشنے کا کام کرتی ہے۔


اگر ترجمہ تخلیق کا درجہ رکھتا ہے تو ہمیں transereation اور ’’آزاد ترجمہ‘‘ جیسی اصطلاحوں پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب اصطلاحیں یا تو خراب ترجموں کا پردہ ہیں یا پھر ایسے تراجم کی حمایت کرتی ہیں جو اصل سے بہتر ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا اس کی توہین کرتے ہیں۔ کوئی بھی ترجمہ اصل کے حسن و خوبی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کوئی فن پارہ کسی دوسرے فن پارے کی ہو بہو نقل نہیں ہو سکتا۔ ترجمہ بذاتِ خود فن پارہ ہے، لیکن اسے ترجمہ کہلانے کا حق اسی وقت ہے جب وہ اصل کی کیفیت اور احساس کو ممکن ترین حد تک دوبارہ خلق کر سکے۔


اگر ترجمے کا وہی مرتبہ ہے جو تخلیق کا ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صرف تخلیقی فنکار ہی اچھے مترجم ہو سکتے ہیں؟ بودلیئر کا دعویٰ تھا کہ ’’نقادوں میں سب سے اچھا نقاد شاعر ہوتا ہے۔‘‘ یہ بات بودلیئر کی حد تک تو صحیح ہے کیوں کہ آج بہت سے لوگ بودلیئر کو سب سے بڑا فرانسیسی نقاد مانتے ہیں لیکن خود بودلیئر نے ایڈگرایلن پو Edger Allan Poe کے جو ترجمے کیے ہیں وہ پوری طرح سچے نہیں ہیں، اس معنی میں کہ بودلیئر نے ترجمے کو اصل سے بڑھا دیا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شاعر اور غیر شاعر، دونوں فرقوں میں اچھے مترجم بھی ہوئے ہیں اور برے بھی۔


پروست کے ترجمے کے لیے اسکاٹ مانکریف (Scott Moncriefe) سے بہتر کوئی نہیں۔ لیکن خود اسکاٹ مانکریف (Scott Moncriefe) ناول نگار نہ تھا۔ ہومر کی الیڈ Aliad کا جو ترجمہ پوپ (Pope) نے کیا تھا وہ بہت زندہ اور متحرک ہے۔ چیپ مین Chapman کے ترجمۂ الیڈ نے کیٹس کو بہت متاثر کیا۔ لیکن نہ چیپ مین اچھا مترجم تھا نہ پوپ۔ میکس ہے ورڈ (Max Hayward) نہ شاعر تھا نہ افسانہ نگار۔ لیکن اس نے روسی نظم و افسانہ کے بہترین تراجم ہمارے زمانے میں پیش کیے۔ اردو میں بہت سے عمدہ شاعر، مترجم اور افسانہ نگار مترجم ہوئے ہیں اور مولوی عنایت اللہ جیسا شخص بھی ہے کہ ان سے بہتر اور کثیر الترجمہ شخص کوئی ہمارے یہاں نہ ہوا۔ لیکن مولوی صاحب نہ شاعر تھے نہ ڈراما نگار۔


لہٰذا اس سلسلے میں کوئی حتمی قاعدہ نہیں ہو سکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مترجم دونوں زبانوں (یعنی اصل زبان اور ترجمے والی زبان) کے آہنگ کو جتنی خوبی سے سن سکےگا، اتنا ہی عمدہ ترجمہ وہ کر سکےگا۔ خلاق مترجم کی صفت یہ ہے کہ جس زبان سے وہ ترجمہ کر رہا ہے، اس کے ادب اور ادبی روایت سے وہ پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ جس فن پارے کا ترجمہ کیا جا رہا ہے، صرف اس فن پارے سے گہری واقفیت کافی نہیں۔ اتنی ہی اہم بات یہ کہ مترجم کو ترجمے والی زبان میں محسوس کرنے اور سوچنے پر قدرت ہونی چاہیے۔ ہم ہندوستانی جب اردو/فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کرتے ہیں تو ہمیں مشکل یہ پڑتی ہے کہ ہم جدید روزمرہ معیاری انگریزی اور قدیم یا کتابی انگریزی میں فرق نہیں کر سکتے۔ یوسف حسین کا ترجمۂ غاؔلب اور خشونت سنگھ کا ترجمۂ اقبال اس کم زوری کی نمایاں مثالیں ہیں، لیکن ایسی مثالیں بہت سی اور بھی ہیں۔


سچ تو یہ ہے کہ شاید ہی کسی ہندوستانی پاکستانی ترجمے کی نشان دہی ہو سکے جو اردو سے جدید، معیاری اور بامحاورہ انگریزی میں کیا گیا ہو۔ اے کے رامانجن (A.K. Ramanujan) نے قدیم تامِل سے جو تراجم انگریزی میں کیے ہیں ان کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ جدید انگریزی کس طرح ایک قطعی مختلف زبان اور قطعی اجنبی ادبی روایت کے فن پاروں کو آج کے پڑھنے والوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ مغربی ترجمے میں فرینسِس پرچٹ (Frances Pritechett) نے انتظار حسین، غالب اور داستانِ امیر حمزہ کو انگریزی میں منتقل کرنے میں خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔


کیا مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصل زبان اور ترجمے والی زبان ان دونوں پر پوری طرح اور یکساں قدرت رکھتا ہو؟ مستشنیات کو دیکھیے تو رابرٹ لول (Robert Lowell) اور آڈن ہیں جو روسی نہیں جانتے تھے، لیکن انھوں نے روسی کے ماہرین یا اس کو مادری زبان کی حیثیت سے بولنے والوں کی مدد سے روسی سے انگریزی میں بعض عمدہ ترجمے کیے ہیں۔ لیکن ترجمے کی کوئی طویل کارگزاری اس طرح نہیں چل سکتی۔ مثالی صورت تو یہ ہے کہ ہم صرف مادری زبان ہی میں خود کو پوری طرح غرق کر سکتے ہیں اور اس طرح غرق ہوئے بغیر زبان میں خلاقانہ فکر کو حاصل کرنا ممکن نہیں۔


چوں کہ بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو صحیح معنوں میں ذولسانی (bilingual) ہوں، اس لیے بہترین عملی صورتِ حال یہ ہوگی کہ مترجمین دو دو کی ٹیم کی شکل میں کام کریں۔ ایک مترجم کی مادری زبان اصل زبان ہو اور وہ ترجمے والی زبان سے بھی خوب واقف ہو اور دوسرے مترجم کی مادری زبان ترجمے والی زبان ہو، لیکن وہ اصل زبان سے بھی بخوبی واقف ہو۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کی تکمیل اور پشت پناہی کریں گے۔ یہ اصول خاص کر مشرقی سے مغربی زبانوں میں ترجمے کے لیے کارآمد ہے کیوں کہ ان دونوں کے درمیان تہذیبی تفاوت بہت بڑا ہے۔ ترجمے کو جاری رہنا چاہیے تاکہ ترجمے والی زبان اور اس زبان کے ادب اور اس کے بولنے والوں کو تو نگری حاصل ہو۔