دروغ گو یہاں پیکر سبھی رعونت کے
دروغ گو یہاں پیکر سبھی رعونت کے
جہاں میں عنقا ہوئے آئنے صداقت کے
پڑا ہے کال ترے شہر میں تو کوچ کریں
تلاش کرتے ہیں گوہر کہیں محبت کے
خرد کی بات کہاں مانتا دل ناداں
بکھر رہے ہوں دھنک رنگ جبکہ الفت کے
بڑے ہی پیار سے چھوتے ہیں دل کے زخموں کو
وہ نوک خار ہی ہیں گل نہیں ہیں چاہت کے
ہیں لفظ کہنہ محبت خلوص رسم وفا
نئے ہیں سلسلے تنسیخ بغض و نفرت کے
مشام جاں میں مہکتی ہے وصل کی خوشبو
ہیں یاد تجھ کو شب و روز اپنی قربت کے
خرد کی سنتے کہاں ہیں جنون عشق میں لوگ
یہ درد سہتے ہیں میناؔ جی کس قیامت کے