درمیان جسم و جاں ہے اک عجب صورت کی آڑ
درمیان جسم و جاں ہے اک عجب صورت کی آڑ
مجھ کو دل کی دل کو ہے میری انانیت کی آڑ
آ گیا ترک خودی کا گر کبھی بھولے سے دھیان
دل نے پیدا کی ہر ایک جانب سے ہر صورت کی آڑ
دیتے ہیں دل کے عوض وہ درد بہر امتحاں
لیتے ہیں نام خدا اپنی طمانیت کی آڑ
نفس پرور کرتے ہیں بدنام نام مے کشی
پردۂ پندار میں لیتے ہیں کیفیت کی آڑ
پردہ داری چشم نا محرم سے تھی مد نظر
درمیاں میں ڈال دی ہے نور نے حیرت کی آڑ
دیدنی جو کچھ ہے جلوہ دیکھ چشم پاک میں
نور نے وحدت میں رہ کر لی ہے کیوں کثرت کی آڑ
جب نہان و آشکارا جلوۂ جانانہ ہے
سب ریاکاری ہے ساحر خلوت و جلوت کی آڑ