درد و غم آج بھی ہے آہ و فغاں آج بھی ہے

درد و غم آج بھی ہے آہ و فغاں آج بھی ہے
تیرگی کا وہی سیلاب رواں آج بھی ہے


اے مسیحا نفسو تم کو خبر ہے کہ نہیں
دل کی بستی سے مرے اٹھتا دھواں آج بھی ہے


ہے غلط دعویٔ مشاطگیٔ کاکل دہر
گیسوئے زیست پریشان یہاں آج بھی ہے


کیوں سر شام مژہ سے مری تارے ٹوٹے
چاندنی کا وہی پر کیف سماں آج بھی ہے


دے خبر جا کے کوئی شہر بتاں میں کہ ندیمؔ
قدردان ستم گل بدناں آج بھی ہے