درد منت کش درماں ہو ضروری تو نہیں

درد منت کش درماں ہو ضروری تو نہیں
زخم مرہم کا ہی خواہاں ہو ضروری تو نہیں


دل کی گہرائی میں داغوں کے چمن کھلتے ہیں
میرا ہر زخم نمایاں ہو ضروری تو نہیں


آگ ہے دونوں طرف گرچہ برابر کی لگی
پھر بھی مجھ سا وہ پریشاں ہو ضروری تو نہیں


ہجر میں تیرے تصور کے مزے کیا کہنے
ہر کوئی دید کا خواہاں ہو ضروری تو نہیں


منتظر میں ترے آنے کا رہوں گا ہر دم
جھوٹا ہر اک ترا پیماں ہو ضروری تو نہیں


دل حب الوطنی چاہوں میں جسے وہ بھی تو چاہے مجھ کو
پورا ایسا کبھی ارماں ہو ضروری تو نہیں


موت آتی ہے کبھی مادر مشفق کی طرح
اس سے ہر شخص گریزاں ہو ضروری تو نہیں


عشق نے ناصح مشفق کی سنی ہی کب تھی
عقل ہی دل کی نگہباں ہو ضروری تو نہیں


کھیتے کس واسطے کشتی ہمیں ہو ساحل ساحل
نہ یہاں خطرۂ طوفاں ہو ضروری تو نہیں


میں سمجھتا تو ہوں انجام محبت ہمیں حبیبؔ
دل اس انجام حب الوطنی لرزاں ہو ضروری تو نہیں