درد کی لہر یقیناً مرے گھر جائے گی

درد کی لہر یقیناً مرے گھر جائے گی
میں نہ ہوں گا تو خدا جانے کدھر جائے گی


موجۂ خوں سے گزرنا ہے گزر جائے گی
چار دن بعد یہ ندی بھی اتر جائے گی


کون کر سکتا ہے افکار و نظر کو محصور
کام خوشبو کا بکھرنا ہے بکھر جائے گی


منزل زیست تجھے میں نہ کروں گا مایوس
میں نہ پہنچا تو مری گرد سفر جائے گی


میں اندھیروں کے تسلسل سے نہیں ہوں خائف
روشنی آج نہیں کل مرے گھر جائے گی


میں تو مر سکتا ہوں حالات کے سناٹوں میں
دوستو کیا مری آواز بھی مر جائے گی