درد گھٹتا بھی نہیں ہے کہ فنا ہو جائے

درد گھٹتا بھی نہیں ہے کہ فنا ہو جائے
اور بڑھتا بھی نہیں ہے کہ دوا ہو جائے


ہے مجھے علم کہ یہ خواب ہے پر خواب میں ہی
میرے اللہ اسے مجھ سے وفا ہو جائے


اس کا احسان ہی اتنا ہے میری سانسوں پر
غیر ممکن ہے کہ سانسوں سے ادا ہو جائے


وہ کسی روز کرے ترک تعلق خود سے
اور اسی دن سے مرا صرف مرا ہو جائے


لاکھ اچھا ہو تو میرا جو نہیں خاک اچھا
اس سے اچھا ہے کہ تو سچ میں برا ہو جائے


وقت کو کر دے قلم خود کو سیاہی کر دے
تیرا سوچا ہوا قسمت کا لکھا ہو جائے


مجھ کو معلوم ہے وہ شخص میرا ہے لیکن
ہے یہ لازم کہ اب اس کو بھی پتا ہو جائے