درد مشترک

میں نے جو ظلم کبھی تجھ سے روا رکھا تھا
آج اسی ظلم کے پھندے میں گرفتار ہوں میں
میں نے جو تیر ترے ہاتھ سے چھینا تھا کبھی
آج اسی تیر کے گھاؤ سے نگوں سار ہوں میں
جس کی خاطر تری ذلت بھی گوارا تھی مجھے
آج اسی ''پیکر عصمت'' کا خطا کار ہوں میں
مری آنکھوں نے جسے چاند کہا تھا کل تک
آج اسی شعلۂ پراں سے عرق بار ہوں میں
تو نہ چاہے بھی تو آفاق ہنسے گا مجھ پر
وقت کے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار ہوں میں


میں نے چاہا تھا کہ انسان کی عظمت کے لیے
ایک مظلوم جوانی کو سہارا دے دوں
ایک ٹھکرائے ہوئے پیار کے صدمے بانٹوں
ایک بھٹکے ہوئے راہی کو اشارہ دے دوں
ایک جھلسے ہوئے احساس کو ٹھنڈک بخشوں
اور کونین کو پھر ذوق نظارہ دے دوں


میں نے اخلاص کے پھولوں سے بنائے گجرے
میں نے اخلاص کے پھولوں سے بنائے گجرے
میں نے احساس کے جھولوں میں جھلایا اس کو
میں نے روندی ہوئی راہوں پہ بچھائی آنکھیں
میں نے پیغام ستاروں کا سنایا اس کو
میں نے افلاس کے دریا کا تموج پی کر
اک نئی آس کے ساحل پہ لگایا اس کو


آج میں سوچ رہا ہوں شب تنہائی میں
کس قدر تلخ جوانی کی لٹی یادیں ہیں
دیکھ اس دور میں ایوان محبت کے لیے
کیسی کیسی غم و اندوہ کی بنیادیں ہیں
کل ترے دیدۂ حیراں سے لہو پھوٹا تھا
آج میرے لب خاموش پہ فریادیں ہیں


یہ محبت یہ وفائیں یہ مروت یہ خلوص
ان کو سرمائے نے بے کار بنا رکھا ہے
حسن اور حسن کے ہر ایک صنم خانے کو
زرپرستوں نے جفاکار بنا رکھا ہے
آ کہ اس دور کا معیار بدلنا ہے ہمیں
جس نے ہر ذہن کو بیمار بنا رکھا ہے
آ کہ اس جنس گراں قدر کو بے دار کریں
جس نے ہم سب کو خریدار بنا رکھا ہے
آ کہ اس فتنۂ زرپوش کو عریاں کر دیں
جس نے آفاق کو بازار بنا رکھا ہے