درد دل کے ساتھ ہے زخم جگر کس سے کہوں

درد دل کے ساتھ ہے زخم جگر کس سے کہوں
بن گئی ہے عاشقی بھی درد سر کس سے کہوں


مر رہا ہوں جا رہا ہوں موت کی آغوش میں
اف خدا ہوتی نہیں ان کو خبر کس سے کہوں


آشیاں احباب نے چھینا کیا بے گھر مجھے
ہائے پھر کاٹے ہیں میرے بال و پر کس سے کہوں


زخم دل میں پھول ہیں گو رنگ و نکہت کچھ نہیں
جیسے ہے جشن چراغاں بے شرر کس سے کہوں


پا سکوں تم کو عراقیؔ آرزو میری رہی
پھر رہا ہوں کو بہ کو میں در بدر کس سے کہوں