درد دل میں ہوں سن اے یار ستم گار کہ تو

درد دل میں ہوں سن اے یار ستم گار کہ تو
تو ہوا چور تو پھر میں ہوں گنہ گار کہ تو


تو وفادار ہے اے یار جنا کار کہ تو
میں وفادار ہوں اے یار ہبہ کار کہ تو


جام مے کس کے یہاں ہاتھ میں رہتا ہے مدام
میں بھلا دختر رز سے ہوں گرفتار کہ تو


تم ہو بد عہد نہ میں میں ہوں وفادار کہ تم
میں یہ کہتا ہوں کہ تم تم کہو ہر بار کہ تو


مجھ کو یوں خوں میں ڈبو کر یہ کہے ہے قاتل
میں بنا آج بھلا غیرت گل زار کہ تو


زخم دل پر میرے کل نون چھڑک کر بولے
آج میں ہوں نمکین اور مزے دار کہ تو


اس سے پوچھوں شب وصل میں میں چھیڑ کے یہ
منہ سے اپنے بھی تو کہہ میں ہوں ملنسار کہ تو


مہر تاباں سے یہ ہر سال ہے میرا داغ جگر
میں ہوں تابندہ ترا مہر پر انوار کہ تو


تجھ کو کہتا ہوں کہ اے برق چمک کر پھر آ
دیکھوں افضل ہے میری آہ شرربار کہ تو


اور یاری کا مزہ لوٹ دلا ایک نہ بن
تیس دن آٹھ پہر یار ہے ناچار کہ تو


کوہ غم دل پہ میرے دوش پہ تیشہ تیرے
کوہ کن تو ہی بتا میں ہوں گراں بار کہ تو


شب کو آ کر وہ گلے سے یہ چمک کر بولے
تجھ سے پوچھوں ہوں کہ اب میں ہوں وفادار کہ تو


اس سے پوچھے ہے جو احسانؔ وفا پیشہ کبھی
بے وفا کون ہے کہتا ہے وہ عیار کہ تو