درد بہتا ہے دریا کے سینے میں پانی نہیں

درد بہتا ہے دریا کے سینے میں پانی نہیں
اس کا چٹان پہ سر پٹکنا کہانی نہیں


بات پہنچے سماعت کو تاثیر دے کس طرح
لفظ ہیں اور لفظوں میں زور بیانی نہیں


ٹوٹ جائے گی دیوار جتنی بھی مضبوط ہو
اس کے احساس کی دھوپ بھی سائبانی نہیں


کیا سمجھ بوجھ کر ہم بھی اپنا خدا ہو گئے
جیسے دنیا ہمیشہ کی ہو دار فانی نہیں


ڈوبتے ڈوبتے ناؤ پہنچے گی اک دن ضرور
میرے ساحل پہ دریا تری مہربانی نہیں


ہم سبھی ایک رشتے کی منجدھار میں قید ہیں
چیخنا کشتیوں کا ظفرؔ بے معانی نہیں