درخت
لفظ
روز اگ آتے ہیں
جنہیں میں اپنے سینے سے کھرچ کھرچ کر
کاغذ پر جمع کر دیتا ہوں
تاکہ انہیں قطع کیا جا سکے
جو بھی میرے لفظ کاٹتا ہے
اس کے ہاتھوں پر
میرے لہو کی بوند سرکنے لگتی ہے
اسے میرے خون سے پہچان لیا جاتا ہے
میں ان لفظوں سے
کچھ اور بنانا چاہتا تھا
مثلاً ایک درخت
جسے میں ایک عورت کی کوکھ میں قائم کر سکتا
اور میرے لہو کی بوند
اس کے رخساروں میں نمایاں ہو سکتی
جو درخت کاٹ دیے جاتے ہیں
ان میں سے کسی کے تنے سے
خون ابلنے لگتا ہے
میرے سینے پر جتنے بال اگے
کوئی عورت ان کی جڑیں سونگھ کر
میری محبت کی گواہی دے سکتی تھی
میرے سینے پر جتنے بال اگے
ان سے میں ایک لفظ بنانا چاہتا تھا
تاکہ عورتیں اپنی بھوک کو ایک نام دے سکیں
میرے سینے پر جتنے لفظ اگے
ان سے میں کچھ اور بنانا چاہتا تھا
مثلاً ایک درخت
جسے کاٹ دیا جائے
تو اس سے میرا خون ابلنے لگے