درخت روح کے جھومے پرند گانے لگے

درخت روح کے جھومے پرند گانے لگے
ہمیں ادھر کے مناظر نظر بھی آنے لگے


خوش آمدید کا منظر غروب شام میں تھا
در شفق پہ فرشتے سے مسکرانے لگے


فراق و وصل کے مابین یہ سماں جیسے
اداس لے میں کوئی حمد گنگنانے لگے


میں ایک ساعت بے خود میں چھو گیا تھا جسے
پھر اس کو لفظ تک آتے ہوئے زمانے لگے


خبر کے موڑ پہ سنگ نشاں تھی بے خبری
ٹھکانے آئے مرے ہوش یا ٹھکانے لگے


مہیب راستے سرحد کی سمت جاتے ہوئے
ذرا سا اور چلے ہم تو وہ سہانے لگے


اک اپنے آپ سے ملنا تھا سازؔ جس کے لیے
رقابتیں ہوئیں درکار دوستانے لگے