درخت

کلہاڑے کا لشکتا پھل درخت کی چھال کو چیرتا ہوا سفید گودے میں کھب گیا۔ یہ پہلی ضرب تھی۔ لکڑہارے نے ہتھیلیوں پر تھوکا اور دستے کو مضبوطی سے تھام کر اسے درخت سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔۔۔ بازوؤں میں اتنی طاقت نہ تھی۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا جیسے غیبی مدد کا منتظر ہو اور پھر زور لگایا۔۔۔ مگر ناکام رہا۔ تیسری مرتبہ اس نے اپنی تمام تر کمینگیوں اور بدعہدیوں کو یاد کیا اور پھر دستے کو کھینچا۔ لشکتا ہوا پھل باہر تو آگیا مگر وہ کند ہو چکا تھا۔ لکڑہارے نے اس مرتبہ ہتھیلیوں پر تھوکنے کی بجائے نفرت سے دھرتی پر تھوکا اور دانت پیستے ہوئے کلہاڑا بلند کر دیا۔

ندی کے کنارے زمین کا یہ ٹکڑا عرصے سے بنجر پڑا تھا۔ بےشمار قدیم درختوں سے گھرا ہوا مگر بنجر، وہ قدیم درخت ہمیشہ سے وہاں تھے مگر حیرت کی بات تھی کہ ان کی جڑیں زمین کے اندر نہیں تھیں، زمین کے اوپر اوپر پھیلی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ پرانے درخت اپنا محل وقوع بدلتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ ہوا کے رخ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اسی جانب کھسکتے رہتے ہیں۔ جڑیں زمین کے اوپر اوپر ہوں تو کھسکنے میں کتنی آسانی رہتی ہے۔ جہاں بارش کا امکان ہوتا، ان کی زبانوں کی لالچی شاخیں ادھر کو پھیلنے لگتیں۔ ان میں ایک دو درخت ایسے بھی تھے جو اپنے مقام پر جمے رہتے۔ ہوا کا ساتھ نہ دیتے مگر خوف کی بناء پر، پیرانہ سالی کی وجہ سے سبھی درختوں کی ٹہنیاں عمر رسیدہ ہونے کے باعث ٹیڑھی ہو چکی تھیں۔ پتوں میں بیماریوں نے سوراخ پیدا کر دیے تھے، اور ان کے کنارے مڑے مڑے تھے۔ ڈالیوں پر حشرت الارض رینگتے رہتے۔ ان کے تنے کھوکھلے ہو چکے تھے۔ چھاؤں بھی چھدری تھی۔

اگر کوئی مسافر ان کے سائے تلے بیٹھتا تو تھوڑی دیر بعد اپنے اوپر گرنے والے کیڑوں مکوڑوں اور بالوں پر پڑتے گھن کے برادے سے تنگ آکر خود ہی چلا جاتا۔ مگر پھر بھی ان درختوں کو زعم تھا کہ وہی در اصل اس خطے کو دھوپ اور بارشوں سے بچائے ہوئے ہیں۔ پھر ان درختوں کے درمیان میں واقع اس بنجر ٹکڑے میں سے ایک کونپل پھوٹی، دنوں میں ایک ننھے منے پودے میں بدل گئی۔ تب اس کی شناخت ہوئی۔ یہ پودا سفیدے کا تھا، تمام لوگ جانتے ہیں کہ سفیدے کا درخت تیزی سے بڑھتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے جنگل پر حاوی ہوجاتا ہےاور اس کی جڑیں زمین میں دور تک چلی جاتی ہیں۔ اور اس کے تنے میں خوشبو ہوتی ہے اور وہ بے حد پروقار اور خوبصورت ہوتا ہے۔

بوڑھے درخت اس نووارد سے بے حد حسد کرتے تھے، اتنی تیزی سے نشوونما پانا ان کے نزدیک گناہ کبیرہ تھا۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ سفیدے کی چھاؤں اتنی گھنی نہیں ہوتی مگر پھر بھی ندی کو پار کرنے والے مسافروں کی اکثریت اس کے سائے تلے آرام کرتی۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو ان کے جسم کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہتے اور دوسرے وہ اس کی خوشبو اور خوبصورتی کے چاؤ میں وہاں بیٹھے رہتے۔ سفیدے کا درخت قدرے مغرور بھی تھا اور وہ اپنے حسن کے تکبر میں بعض اوقات مسافروں کی نفرت بھی مول لے لیتا مگر بعد میں وہ اسے معاف کر دیتے۔ اب بوڑھے درخت دانت پیستے خاموش بیٹھے رہتے۔ کوئی بھی ان کے قریب نہ جاتا۔ پھر ندی میں سیلاب آیا اور درخت اپنی جگہ پر جما رہا۔ مگر بیشتر پرانے درخت ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اب ان کے درمیان حسد کا رشتہ ٹوٹا اور نفرت اور ضد کا الاؤ بھڑکنے لگا۔

اسی دوران ادھر سے اس کا گزر ہوا۔

اس کے کاندھے پر ایک کلہاڑا تھا لشکتے ہوئے پھل والا۔ کلہاڑے کی دوسری ضرب سے درخت کے پتوں میں خفیف سی بے چین حرکت ہوئی۔ انہوں نےمحسوس کیا کہ ان کے تنے پر وار ہوا ہے۔ جڑوں کو بھی خبر ہوئی کہ تازہ ہواسے رابطہ کٹ رہا ہے۔ اب سانس لینا مشکل ہو جائے گا۔

’’اس درخت کو مت کاٹو۔۔۔‘‘ لکڑہارے کے نوجوان معاون نے دستے پر ہاتھ جما کر درخواست کی۔

’’ہونہہ۔۔۔‘‘ لکڑہارے نے تکبر سے دھرتی پر تھوکا اور گردن اونچی کر کے سفیدے کی بلندترین شاخوں کو دیکھنےکی کوشش کی مگر وہاں تک پہنچتے پہنچتے اس کی نظر دھندلا گئی۔ ’’اس کے پتے کھجور کی طرح زمین سے بہت دور ہیں۔ ان کی چھاؤں چھدری اور ہلکی ہے۔ مسافر صرف اس کی خوبصورتی اور تنے سے نکلنے والی خوشبو سے مسحور ہو کر اس کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کے چہرے دھوپ کی شدت سے پہلے بھی سیاہ تھے اور اب بھی ہیں۔ اس درخت نے انہیں کیا دیا ہے۔ ہاں دھوپ سے بچانے کا سر اب دکھایا مگر بچایا نہیں۔ میں اسے کاٹ دوں گا۔‘‘

’’بابا کم از کم اس کی شاخوں میں سے کیڑے مکوڑے مسافروں پر نہیں گرتے۔ انہیں یہ بھی یقین ہے باطل ہی سہی کہ یہ ان پر گر کر انہیں کچلے گا نہیں۔‘‘

’’میں اس کی جگہ نئے درخت لگاؤں گا۔‘‘

’’مگر ہم لکڑہارے تو صرف درخت کاٹتے ہیں لگاتے نہیں۔‘‘

اس نے جواب دینے کی بجائے کلہاڑا بلند کیا اور ’’درخت‘‘ کے تنے میں اتار دیا۔ شام ہوگئی مگر درخت گرا نہیں۔ دوسری صبح ندی پار کرنے والے پہلے شخص نے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اپنا تہبند سر سے اتارا اور اسے کمر کے گرد کس لیا۔ بغل میں دبی جوتی نکال کر پہنی اور سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔ ’’درخت‘‘ کے تنے میں ایک گہرا زخم تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اپنی ہتھیلی اس کے اندر رکھ دی۔ زخم گہرا تھا۔ مگر وہاں خون نہ تھا صرف ٹھنڈک اور اطمینان تھا۔ ’اسے کون کاٹ رہا ہے؟‘ وہ منزل کی جانب روانہ ہونے کی بجائے وہیں بیٹھ گیا۔ دوسرا شخص آیا تو پہلے شخص نے اسے درخت کے گھاؤ کے بارے میں بتایا، وہ بھی وہیں براجمان ہوگیا۔ جب لکڑہارا اپنے کلہاڑے کو ساری رات تیز کرنے کے بعد واپس آیا تو وہاں اچھا خاصا ہجوم تھا۔ لشکتا پھل فضا میں اٹھا تو کسی ہاتھ نے دستے پر اپنا بوجھ ڈال دیا۔

’’تم کون ہو؟‘‘

’’ہم مسافر ہیں۔ اس درخت کی چھاؤں میں بیٹھتے ہیں۔۔۔ اور تم؟‘‘

’’میں لکڑہارا ہوں۔ اس درخت کو کاٹ کر اس جگہ نئے درخت لگانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’مگر لکڑہارے صرف درخت کاٹتے ہیں لگاتے نہیں۔‘‘

’’تم دیکھ لوگے کہ یہ لکڑہارا درخت لگاتا بھی ہے۔‘‘

’’مگر اس عمل میں تو برسوں لگ جائیں گے تب تک ہم کہاں سستائیں گے۔‘‘

’’گھنی چھاؤں کی امید میں چند برس انتظار بھی تو کیا جا سکتا ہے۔‘‘

’’ان چند برسوں میں ہم شاید نہ رہیں۔۔۔ ہم تمہیں اسے کاٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘

’’اس درخت اور میرے کلہاڑے کے درمیان جو شے حائل ہوتی ہے کٹ جاتی ہے۔‘‘ مسافروں کے ہاتھ خالی تھے، انہیں پیچھے ہٹنا پڑا، اور لکڑہارا ’درخت‘ پر وار کرنے لگا۔ بالآخر بلندی پر تالیاں بجاتے پتے اور زمین میں دور تک اتری ہوئی جڑوں کے درمیان صرف ایک رگ باقی رہ گئی۔ لکڑہارے نے دھرتی پر تھوکا اور اپنے کلہاڑے سے اس رگ کو بھی کاٹ دیا۔

درخت ترچھا ہوا۔ دھرتی کا رخ کیا اور گرنے لگا اور نیچا ہوا، اور ہوا کے رخ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زمین کی جانب جھکتا چلا گیا۔۔۔ اور پھر اس کے گرنے کی آواز پورے جنگل میں چیختی ہوئی چھا گئی۔ مسافروں نے حیرت سے دیکھا، وہ درخت، دیکھنے میں اتنا بلند نہیں لگتا تھا مگر اب تو وہ جنگل کے اس سرے سے لے کر دوسرے سرے تک قدیم درختوں کو کچلتا ہوا ان پر لیٹا تھا۔ مسافر اپنے محنتی ہاتھوں کے پیمانوں سے اس کی لمبائی ماپنے لگے، (درخت کی بلندی صرف اس کے گرنے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔) اور پھر ماتم کرنے لگے۔ لکڑہارے کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ اس نے آخری ضرب تو لگائی مگر اس کے بعد وہ کہاں گیا کسی کو معلوم نہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں اور ا ن میں لکڑہارے کا نوجوان معاون بھی شامل ہے کہ جب بلندی پر تالیاں بجاتے پتوں اور زمین میں دور تک اتری ہوئی جڑوں کے درمیان صرف ایک رگ باقی رہ گئی تو یک دم لکڑہارے کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ چلا گیا۔ اور آہستہ آہستہ درخت کے گہرے زخم بھر رہے ہیں، کیونکہ جس وجود کی جڑیں زمین میں دور تک پھیلی ہوں زمین اسے کبھی اپنے سے جدا نہیں کرتی۔