ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئے

ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئے
لخت دل بن کے نکل جائیں گے غم کھائے ہوئے


دم نکلنا ہے دل زار کا ہے حال اخیر
نالے آتے ہیں لبوں تک مرے گھبرائے ہوئے


یہ بہانہ ہے مرے قتل پہ راضی نہیں تیر
غل مچاتی ہے کماں ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے


ہم تو مر جائیں گے ہر گل پہ عدم میں بھی رشیدؔ
جاتے ہیں گلشن فانی کی ہوا کھائے ہوئے